Maktaba Wahhabi

420 - 589
سے حاجات مانگنے اور سختیوں میں ان سے استغاثہ کرنے کا بھی یہی حال ہے، چنانچہ یہ دونوں مشرک ہونے میں برابر ہیں اور ان کا شرک وہی شرک ہے جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو کافر ٹھہرایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شفاعت کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی نبی، ولی، فرشتے اور اللہ کے علاوہ کسی معبود کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ جو شفاعت قیامت کے دن واقع ہوگی، وہ بھی صرف اللہ کی اجازت کے بعد ہی ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس شفاعت کی اجازت صرف اس شخص کو دیں گے جس کا کلام اور کام پسند کریں گے اور اسی کو اجازت دیں گے جو موحد ہو گا اور مشرک نہ ہو گا، لہٰذا قیامت کے دن سید الشفعاء (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شفاعت کی سعادت انہی لوگوں کو حاصل ہو گی، جو اہلِ توحید ہوں گے، جیسا کہ نصوص صحیحہ میں اس کی تصریح ہو چکی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِہٖ أَوْ نَفْسِہٖ )) (رواہ البخاري) [1] [قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب وہ شخص ہوگا جو صدق دل سے یا اپنے خالص جی سے ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ کہہ دے] نیز سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: (( أَتَانِيْ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّيْ فَخَیَّرَنِيْ بَیْنَ أَنْ یَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِيْ الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَۃَ وَہِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا )) (رواہ الترمذي وابن ماجہ) [2] [میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل کر دی جائے یا میں شفاعت کر لوں تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، جو ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا] اس سے معلوم ہو اکہ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے لیے سب سے بڑا بختاور، صاحبِ
Flag Counter