Maktaba Wahhabi

171 - 589
مشرکوں کی عبادت کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بت خانوں اور پرستش گاہوں میں عبادت کی نیت سے قیام و اعتکاف کرتے، سختیوں کے وقت ان بتوں کو پکارتے، ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور ان کے نام کی قسم کھاتے، حالانکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ صفاتِ ربوبیت صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ، ان کے شرکا کا ان صفات میں کچھ حصہ نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت سے ان کی غرض یہ تھی کہ اس ذریعے سے انھیں اللہ کا تقرب حاصل ہو اور وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں ۔ اس بنیاد پر دورِ حاضر کے شرک اور پہلے دور کے مشرکوں کے شرک میں چار طرح کا فرق ہے: 1۔پہلے مشرک توحیدِ ربوبیت میں شرک نہیں کرتے تھے۔ 2۔سختی کے وقت بھی وہ شرک نہیں کرتے تھے۔ 3۔ان کے شرک کا مقصد معبود ان باطلہ کے واسطے سے حاجات طلب کرنا تھا۔ 4۔ان کے شرک کا مقصود باطل معبودوں کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرنا تھا۔ جبکہ آج کے مشرک ان چاروں چیزوں میں ان سے الگ ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آج کل کے مشرک قبر کی زیارت کے وقت یوں کہتے ہیں : اے فلاں شیخ! تم ہمیں یہ دو اور وہ دو۔ وہ ان کی نذر مانتے ہیں اور سختی کے وقت اس صاحبِ قبر کو پکارتے ہیں ، مثلاً جب دریا میں جوش آتا ہے تو کہتے ہیں : اے فلاں شیخ! ہمیں ڈوبنے سے بچاؤ، اس کے بدلے میں تمھیں ہم نذر میں یہ دیں گے اور وہ دیں گے۔ میں نے جس بحری جہاز میں سفرِ حج کیا تھا، خود اپنے کانوں سے سنا تھا کہ جب شدید قسم کی موجیں اور لہریں اٹھتی تھیں تو اہلِ جہاز کہتے: یا شیخ عید روس محی النفوس! ہم کو غرق ہونے سے بچاؤ! نعوذ باﷲ من ذلک۔ غرض کہ یہ لوگ بلا واسطہ مخلوق سے نجات اور بچاؤ طلب کرتے ہیں ۔ پہلے دور کے مشرک سختی کے وقت شرک نہیں کرتے تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ مَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ *ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْکُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُوْنَ *لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ فَتَمَتَّعُوْا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ﴾ [النحل: ۵۳۔۵۵] [اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، پھر جب تمھیں تکلیف پہنچتی
Flag Counter