Maktaba Wahhabi

127 - 183
وغیرہ، ان میں زکوٰۃ واجب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب انہیں ذاتی استعمال کےلیے رکھا گیا تو یہ زکوٰۃ والے مال سے نکل کر غیر زکوٰۃ والے مال میں شامل ہوگئے۔ اورامام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’سونے چاندی کی دو قسمیں ہیں: 1- ایسا سونا چاندی جسے قیمت ادا کرنےکےلیے،یا تجارت کےلیے یامنافع کمانے کےلیےرکھا گیا ہو تو اس میں زکوٰۃ ہوگی، جیسے کہ سکوں اور خالص سونے چاندی میں ہوتی ہے۔ 2- ایسا سونا چاندی جسے نفع یا تجارت کےلیے نہیں رکھا گیا ، مثال کے طور پر عورت کا زیور، اور اسلحہ اور اوزاروں میں ایسے انداز سے استعمال ہونے والا سونا یا چاندی جسے شریعت کی رو سے اجازت ملتی ہے تو اس میں بھی زکوٰۃ نہیں ہے‘‘[1] خلاصہ یہ ہوا کہ: اس مسئلے کے بارے میں اختلاف بہت قوی ہے، اور ہر موقف کی دلیل اور قابل اعتماد حجت بھی ہے۔ لیکن پھر بھی زکوٰۃ ادا کر دینا ہی محتاط اور بری الذمہ ہونے کےلیےبہتر معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’احتیاط اسی میں ہے کہ زکوٰۃ ادا کر دی جائے‘‘[2] اسی طرح شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنا ہی محتاط ہے؛ کیونکہ جو شخص شبہات سے بچے تو وہ اپنے دین اور آبرو کو محفوظ بنا لیتا ہے، اور شبہ والی چیز کو چھوڑ کر یقینی چیز کو اپنانا چاہیے، باقی کامل علم تو صرف اللہ تعالی کی ذات کے پاس ہے‘[3] واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
Flag Counter