Maktaba Wahhabi

500 - 516
لوگ اسے اشیاء رعایت دے کر محبت و پیار پیدا کر سکتے ہیں جو آگے چل کرناجائز مفاد کے حصول کا سبب بن سکتا ہے، البتہ قاضی کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی ایسے وکیل کے ذریعے سے خریدو فروخت کرے جس سے عام لوگ واقف نہ ہوں۔ قاضی اپنا فیصلہ خودنہ کرے اور نہ اس کے بارے میں فیصلہ دے جس سے متعلق خود قاضی کو گواہی شرعاً قبول نہ ہو، مثلاً: والد ، اولاد ، بیوی وغیرہ کیونکہ اس موقع پر جانبداری کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے دشمن کا فیصلہ نہ کرے کیونکہ ان احوال میں اس پر تہمت و الزام لگنے کا امکان ہوتا ہے بلکہ ایسے مقدمات کسی دوسرے قاضی کی طرف منتقل کردے۔ روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کروایا۔سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ایک عراقی شخص کے خلاف دعوی قاضی شریح کی عدالت میں دائرکیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے کروایا۔ قاضی کے لیے مستحب یہ ہے کہ ان لوگوں کے معاملات پہلے طے کرے جن کے حالات فیصلہ جلدی دینے کا تقاضا کرتے ہیں ،مثلاً:قیدیوں ، یتیموں اور ذہنی معذوروں کے معاملات، پھر ان اوقاف اور وصیتوں کا فیصلہ کرے جن کا کوئی ذمے دار نہ ہو۔ اگر قاضی کا فیصلہ کتاب و سنت کے احکام کے مخالف ہو یا اجماع قطعی کے خلاف ہو تو وہ قابل قبول نہ ہو گا۔ قاضی کے ان آداب پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں قاضی کے عادل ہونے کی کتنی اہمیت ہے اور اسلام میں قضا کے منصب کو اتنا بلند مقام دیا گیا ہے کہ دنیا کے نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: "أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ " "کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟"[1] اللہ ستیاناس کرے ان لوگوں کا جو اس ربانی فیصلے سے اعراض کر کے شیطانی قانون کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کی کیفیت بالکل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہے: "أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ"
Flag Counter