Maktaba Wahhabi

241 - 516
حصہ مقرر کر دیا ہے جیسا کہ اس کے اقرباء کا حق ہے۔ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ ہر ایک دوسرے کو احترام و توقیر کی نگاہ سے دیکھے۔ دین اسلام کے ان جملہ احکام میں خیرو برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی پر ہمیں زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔ اختلاف دین کی بنا پر وراثت اختلاف دین کا مطلب ہے کہ مورث اور وارث دونوں الگ الگ دین وملت کے متبع ہوں۔ اس بارے میں دو مسئلے نہایت اہم ہیں: 1۔ کافر کو مسلمان کا اور مسلمان کو کافر کا وارث بنانا۔ اس مسئلے میں علماء کے مختلف چار اقوال ہیں۔ مسلمان اور کافر دونوں ایک دوسرے کے مطلقاً وارث نہیں ہیں۔ یہ قول اکثر اہل علم کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ " "مسلمان کافر شخص کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں۔"[1] مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں مگر "ولاء "کی صورت میں وارث ہوں گے ،یعنی آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ کی ولاء(مال ترکہ)ملے گی اگرچہ ایک فریق کافر ہی کیوں نہ ہو۔حدیث شریف میں ہے: " لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَبْدَهُ أَوْ أَمَتَهُ " ’’مسلمان نصرانی کا وارث نہ ہو گا الایہ کہ وہ (آزاد کردہ )اس کا غلام یا لونڈی رہی ہو۔‘‘[2] اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ "ولاء" کی صورت میں معتق اپنے آزاد کردہ کا وارث ہوگا چاہے دونوں کا دین الگ الگ ہو۔ اگر کوئی کافر رشتے دار کسی مسلمان کی موت کے بعد اور اس کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے پہلے مسلمان ہو گیا تو وہ وارث ہوگا ،چنانچہ حدیث میں ہے:
Flag Counter