Maktaba Wahhabi

499 - 516
"لاَ يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ" "کوئی حاکم غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ دے۔"[1] اس کی وجہ یہ ہے کہ غصے کی حالت میں انسان کے دل و دماغ پر دباؤ اور کھچاؤ ہوتا ہے ،نیز غصے کی کیفیت کمال فہم کے لیے مانع ہے۔ غصے سے نظر انصاف دھندلا جاتی ہے علم و حلم کی راہ گم ہو جاتی ہے۔ غصے کی کیفیت پر قیاس کرتے ہوئے اس حالت کا بھی یہی حکم ہے۔ جب قاضی ذہنی انتشار اور تناؤ میں ہو، اسے سخت بھوک یا پیاس لگی ہو، وہ شدید غم سے دوچار ہو، اکتاہٹ یا اونگھ میں ہو، سردی یا گرمی کی شدت نے اسے پریشان کر رکھا ہو یا قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کر رہا ہوتو یہ سب صورتیں ایسی ہیں جو قاضی کے ذہن کو مشغول رکھ کر اسے کسی مثبت نتیجے تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں، لہٰذا یہ غصے ہی کا حکم رکھتی ہیں۔ قاضی کے لیے رشوت قبول کرنا حرام ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے: " لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے(دونوں)پر لعنت کی ہے۔"[2] رشوت دو طرح کی ہوتی ہے: 1۔ جو کسی ایک فریق سے وصول کی جائے تاکہ اس کے حق میں باطل اور ناجائز طور پر فیصلہ دیا جاسکے۔ 2۔ کسی فریق کو اس کا جائز حق دینے کے لیے اس سے رشوت کا مطالبہ کرنا۔ دونوں صورتوں میں رشوت کا مطالبہ ظلم عظیم ہے۔ قاضی کے لیے حرام ہے کہ وہ اس شخص کا تحفہ قبول کرے جو اسے عہدۂ قضا پر فائز ہونے سے قبل تحفے نہیں دیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "هَدَايَا الْعُمَّالِ غُلُولٌ" "حکومت کے کارندوں کا تحائف قبول کرنا خیانت ہے۔"[3] اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے تحفہ قبول کرنا جس کی تحفے تحائف دینا عادت نہیں، یہ چیز اس کے حق میں فیصلہ دینے کا سبب بن جاتی ہے۔ قاضی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بازار سے اشیاء کی خریدو فروخت خود کرے کیونکہ اس طریقے سے دوکاندار
Flag Counter