Maktaba Wahhabi

333 - 516
عدت کے احکام طلاق کے بعد عدت گزاری جاتی ہے۔ اس سے مراد عورت کا شریعت کی طرف سے عائد کردہ بعض پابندیاں ملحوظ رکھتے ہوئے ایک محدود مدت تک انتظار کرنا ہے۔ عدت کی دلیل کتاب اللہ ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ " "طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔"[1] نیز ارشاد ہے: "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ " "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں، اگر تمھیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہواور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔"[2] اس آیات میں اس عدت کا ذکر ہے جو زندگی میں مفارقت کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور اگر عدت کا تعلق شوہر کی وفات سے ہو تو اس بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " "تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں۔"[3] احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عدت کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: "أُمِرَتْ بَرِيرَةُ أَنْ تَعْتَدَّ بِثَلَاثِ حِيَضٍ " "بریرہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا گیا کہ وہ تین حیض عدت گزارے۔"[4] عدت کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ عورت کے رحم میں حمل کی صورت حال واضح ہو جائے تاکہ نسب کا اختلاط نہ ہو۔ اسی طرح رجعی طلاق کی صورت میں طلاق دینے والے شوہر کو مہلت دینا ہے کہ اگر وہ طلاق دے کر
Flag Counter