Maktaba Wahhabi

356 - 516
سے جس کے ساتھ چاہے رہے۔جب بچہ سمجھدار عمر کو پہنچ جائے گا تو اس کا کسی ایک کی طرف میلان اور اس کا انتخاب دلالت کرتا ہے کہ وہ اسے اپنے حق میں دوسرے سے زیادہ رحیم وشفیق سمجھتا ہے۔ (9)الغرض سمجھدار بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار تب ہوگا جب وہ شرطیں موجود ہوں گی: 1۔والدین میں سے ہر ایک پرورش کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ 2۔بچہ سمجھداراور عقل مند ہو۔اگر وہ کم عقل(معتوہ) ہے تو وہ ماں کے پاس رہے گا کیونکہ ماں اسے زیادہ شفقت کرنے والی اور اس کی مصلحتوں کا خیال رکھنے والی ہوتی ہے۔ (10)۔جب سمجھدار بچہ باپ کاانتخاب کرے گا تو دن رات اس کے ہاں رہے گا تاکہ باپ اس کی حفاظت کرسکے اور تعلیم وادب سکھانےکا بندوبست کرسکے لیکن وہ اسے ماں سے ملاقات کرنے سے نہ روکے کیونکہ ایسا کرنے سےبچہ والدہ کو ناراض کرنے اور قطع رحمی کا سبق سیکھتا ہے۔اسی طرح ماں کاانتخاب کرنے کی صورت میں وہ رات کو اس کے پاس دن کو باپ کے پاس رہے گا تاکہ وہ اس کی تعلیم وتربیت جاری رکھ سکے۔اگر وہ کسی کا بھی انتخاب نہ کرے تو والدین میں قرعہ اندازی کرلی جائے کیونکہ اب کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کی صورت قرعہ کے سوا اور کوئی نہیں۔ (11)۔لڑکی سات برس کی ہوجائے تو وہ باپ کے پاس رہے گی حتیٰ کہ اس کی شادی ہوجائے کیونکہ باپ اپنی بیٹی کی حفاظت اور سرپرستی دوسروں کی نسبت بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ماں کو لڑکی کے ہاں آنے جانے سے روکا نہیں جائے کیونکہ وہ اس کی بیٹی ہے بشرطیکہ ملاقات سے کوئی خرابی اور بگاڑ پیدا نہ ہوتا ہو۔اگر باپ بیٹی کی حفاظت کرنے سے عاجز ہو یا وہ مشغولیت یادین کی کمی کی وجہ سے بے پروا ثابت ہوا ہو اور ماں نگرانی وحفاظت کرسکتی ہو تو بچی اپنی ماں کے پاس رہے گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام احمد اور ان کے رفقاء کا یہی( درج بالا) نقطہ نظر ہے ۔نیز فرماتے ہیں :"جب یقین ہو کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کو دوسری بیوی کے پاس رکھے گا جو اس کے مصالح کا خیال نہیں رکھے گی بلکہ اسے تکلیف دے گی اور اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے میں کوتاہی کرے گی جب کہ بچی کی حقیقی ماں اس کے مصالح وفوائد کا خیال رکھے گی اور اسے تکلیف نہ پہنچنے دے گی تو اس صورت میں پرورش کا قطعی حق ماں کو حاصل ہے۔"[1]واللہ اعلم۔
Flag Counter