Maktaba Wahhabi

355 - 516
"جس نے والدہ اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان جدائی ڈالے گا۔"[1] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں(لونڈی) کو بچے کے بغیر یا بچے کو ماں کے بغیر فروخت کرنے سے منع کیا ہے اگرچہ ایک ہی شہر میں ہوں۔ان فرامین کے ہوتے ہوئے اس امر کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی حیلے بہانے سے والدہ اور اس کے بچے میں تفریق کی جائے جس کے نتیجے میں ماں کے لیے بچے کو دیکھنا اور اس سے ملاقات کرنا مشکل ہو؟ماں کے لیے اس جدائی پر صبر کرنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کو تسلیم کریں کہ باپ سفر پر جائے یا اسی شہر میں اقامت اختیار کرے،بچہ ماں کے پاس رہے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرمایا: "أنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحي" "توبچے کی کفالت کی زیادہ حقدار ہے جب تک کسی دوسری جگہ شادی نہیں کرتی۔"[2] حدیث میں یہ نہیں ہے کہ تو بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک بچے کا باپ سفر پر روانہ نہیں ہوجاتا۔یہ بات قرآن مجید کی کس آیت میں ہے یاکون سی حدیث میں ہے؟کیا کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے فتوے میں ہے یاکسی قیاس صحیح میں ہے؟ درحقیقت نہ نص ہے ،نہ قیاس اور نہ اس میں کوئی مصلحت ہی ہے۔"[3] (8)۔باقی رہا بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے اختیار دینا تو وہ تب ہے جب وہ سات برس کا ہو جائے اور سات برس کا بچہ عقل مند ہوتا ہے وہ جسے پسند کرے گا اس کے پاس رہے گا۔خلفائے راشدین میں سے حضر ت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کا یہی فیصلہ تھا۔سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا:اے اللہ کے رسول! میرا شوہر مجھ سے بچہ چھیننا چاہتاہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ " ، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ" "(اے بچے!) یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے تو جس کا ہاتھ تھامنا چاہتا ہے تھام لے،چنانچہ اس نے ماں کاہاتھ پکڑلیا اور وہ اسے لے گئی۔"[4] اس روایت سے واضح ہوا کہ جب بچہ والدین میں سے کسی کا محتاج نہ رہے تو اسے اختیار ہوگا کہ والدین میں
Flag Counter