مدرسہ ہی میں قیام فرماتے،اساتذہ اور منتہی طلبہ کو قرآن مجید کا درس دیتے،منتظمین کو اپنے تعلیمی اور اصلاحی نظریات سے آگاہ کرتے اور اگر اس سلسلہ میں ان کو کوئی شکوک وشبہات ہوتے تو ان کو دو رکر نے کی کوشش کرتے۔‘‘[1]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس مدرسہ کو چلانے کےلئے بہت محنت اور جدو جہد سے کام لیا۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ مدرسہ مولانا کے گھرسے ایک اسٹیشن کے فاصلے پر ہے،مولانا ہر ہفتہ میں تین دن شب و رَوز مدرسہ میں بسر فرماتے تھے،اور سن کر تعجب ہو گا کہ اس اہتمام کے ساتھ آتے تھے کہ اپنے قیام تک کے لئے کھانا پکوا کر ساتھ لاتے تھے یا بعد کو پک کر آجاتاتھا،اسی مدرسہ میں مولانا کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی،جس میں وہ قیام فرماتے تھے۔‘‘[2]
مدرسہ کی روئیداد میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نام 1910ء سے نظر آتا ہے۔اور حیدر آباد سے واپسی تک کے اس دَور میں بھی انہوں نے مدرسے کے لئے بعض اہم خدمات انجام دیں۔جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
٭ 21 جولائی 1910ء:مدرسہ کے دستور العمل کی تیاری
٭ 10 جولائی 12ء:ماہ شوال سے مدرسہ کے تعلیمی سال کی ابتداء
٭ ستمبر 12ء:طلبہ کے لئے رجسٹر داخل خارج کا اجراء
٭ اکتوبر 12ء:انگریزی زبان پڑھانے کی ابتداء
٭ نومبر 12ء:رقم سود پر بنک میں جمع کرانے کی بجائے مضاربت پر کاروبار میں لگانے کی تجویز
٭ دسمبر 12ء:مدرسے کی امداد کیلئے دوامی چندے کا اجراء جس کے تحت مولانا نے بھی ایک معقول رقم دے کر پہل کی۔
٭ اگست 14ء:مدرسے کیلئے کمرے کی تعمیر کی اسکیم جس کے تحت مولانا نے بھی ایک کمرہ تعمیر کرانے کا ذمہ لیا۔
٭ اکتوبر 14ء:سرکاری امداد قبول کرنے کیلئے آزادانہ حکمتِ عملی کا فیصلہ
٭ نومبر 14ء:مدرسے میں مولانا شبلی ندوی متکلم کا تقرر
٭ نومبر 19ء:مدرسے کی درسگاہ کے لئے بنیاد کی کھدائی میں مولانا کی شرکت حیدر آباد سے واپسی کے بعد کا یہ پہلا قابل ذکر اہم واقعہ ہے۔
٭ اپریل 21ء:فیصلہ چندے کے لئے مولانا فراہی رحمہ اللہ باہر نکلیں
٭ جون 21ء:کمیٹی اصلاحِ نصاب عربی کی تشکیل
٭ نومبر 23ء:درجۂ رفاقت کا اجراء اور وظیفے کیلئے نیا چندہ
٭ جنوری 26ء سنگاپور کے لئے وفد کی روانگی،وفد کی سربراہی کیلئے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کا نام تجویز ہوا۔
|