تو یہ مسئلہ کی ایک دلیل ہو گی ابوالحسین سہیلی کہتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ پر وہ اجماع کریں اور یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے آیت کی دلالت سے یا قیاس کی دلالت سے یا کسی اور شئ کی دلالت سے اجماع کیا ہے تو ا س حکم کی طرف رجوع واجب ہے،کیونکہ وہ بغیر دلالت کے اجماع نہیں کرتے اور دلالت کی معرفت ضروری نہیں۔‘‘[1]
توضیح تلویح میں ہے:
’’یعنی اجماع اپنے انعقاد میں سند کا محتاج ہے نہ حکم پر دلالت کرنے میں،کیونکہ اجماع سے استدلال کرنے والا سند کے لحاظ اور توجہ کا محتاج نہیں۔‘‘[2]
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ خواہ دلیل کا علم ہو یا نہ ہو،اجماع کی طرف رجوع ضروری ہے۔
اسباب نزول
بلاشبہ قرآن پاک تدریجاً بحسبِ الحوائج نازل ہوا ہے۔قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو ابتداء موعظت وعبرت یا اصولِ دین اور احکامِ تشریع کے بیان میں نازل ہوا ہے لیکن قرآن کا کچھ حصہ وہ ہے جو کسی حادثہ یا سوال کے جواب میں اُترا ہے۔علماء نے ان حوادث ؍ سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے۔[3]
اسبابِ نزول کے علم سے چونکہ آیت کا پس منظر سمجھ آتا ہے اور آیت کے سبب سے جہالت بسا اوقات حیرت کا موجب بنتی ہے،اس لئے اسبابِ نزول کی معرفت کو علم تفسیر میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور علماء نے علومِ قرآن پر جو کتابیں لکھی ہیں اُن میں اسبابِ نزول کے عنوان کو مستقل طور پر ذکر کیا ہے بلکہ خالصتاً اسبابِ نزول پر بھی کتابیں مرتب کی ہیں۔
جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ الاتقان میں لکھتے ہیں:
"أفرده بالتّصنیف جماعة أقدمهم علي ابن المديني شیخ البخاريّ"[4]
کہ علما نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور اس باب میں سب سے پہلی تصنیف علی بن مدینی کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔
اسی طرح سیوطی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے ابو الحسین علی بن احمد واحدی(468ھ)کی تالیف[5]کو مشہور ترین قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فيه أعواز کہ اس میں کچھ مشکلات ہیں،کہہ کر اس پر تبصرہ بھی کیا ہے۔پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(852ھ)کی اسبابِ نزول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:فات عنه مسودة فلم نقف علیه کاملا کہ ان کی کتاب کا مسودہ ضائع
|