ہے کہ اب اجماع پراطلاق کا ذریعہ صرف موجودہ کتابیں ہیں اور ظاہر ہے کہ(کتابوں والوں کو)اس پر اطلاع یا تو سماع کے ساتھ ہے یا تواتر کے ساتھ ہے۔اور یہ صحابہ ہی کے وقت ہو سکتا ہے ان کے بعد مشکل ہے۔‘‘[1]
امام احمد رحمہ اللہ نے بہت جگہ اجماع کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔فرماتے ہیں کہ ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع کی بابت کوئی حدیث صحیح نہیں،مگر لوگوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ یہ جائز نہیں۔[2]
ابن حزم رحمہ اللہ(456ھ)سیدنا ابوبکر صدیق رحمہ اللہ(13ھ)کی خلافت کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ نص کے ساتھ تھی مگردلیل ’اجماع صحابہ‘ پیش کرتے ہیں۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یعنی یہ بات محال ہے کہ صحابہ بغیر نص کے اس پر اجماع کر لیں۔‘‘[3]
امام شاطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’ خلفاء کی سنت اور ان کا عمل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے۔‘‘[4]
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’سلف کا سنّت ابو بکر اور سنت عمر کہنا اس سے مراد یہ ہے کہ(لوگوں کو)معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی سنت پر فوت ہوئے(گویا خلفاء کا ایک سنت پر ہونا قرینہ ہے کہ یہ سنت نبوی ہے)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ساتھ کسی کے قول کی ضرورت نہیں خواہ صراحتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا علم ہو جائے یا خلفاء وغیرہ کے عملدرآمد سے۔‘‘[5]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جس مسئلہ پر ان کا اجماع ہو اگر اس کی نسبت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہو تو وہ اللہ چاہے ویسا ہی ہے اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت نہیں کی تو اس میں احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو اور احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو۔(بلکہ اجتہاد سے ہو)پس ایسی حالت میں ہم اس کو بے کھٹکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت نہیں کر سکتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت اسی کی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا گیا ہو اگر ایسی شے کوئی حکایت کرے جس میں غیر سماع کا بھی احتمال ہو تو ہم ان کی اتباع کر کے اسی کے قائل ہوں گے اور ہم جانتے ہیں کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے پوشیدہ نہیں رہتیں۔البتہ بعض سے کبھی پوشیدہ رہ جاتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ عام جماعت کا اجماع سنت رسول کے خلاف پر اور عمل پر نہیں ہوتا۔‘‘[6]
’حصول المامول‘ میں ہے:
’’ابواسحق کہتے ہیں کہ جب اجماع ہو تو مجتہد پر طلب دلیل واجب نہیں اگر اس کو وہ دلیل ظاہر ہو گئی یا اس کی طرف نقل کی گئی
|