تیسرا نکتہ
قرآن کی تفسیر میں سابقہ صحائف سے رہنمائی لینے میں مولانا نے ایک اہم فائدہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ بعض اوقات اللہ عزو جل سابقہ کتب کی کسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے قرآن میں کلام فرماتے ہیں لہٰذا اگر سابقہ کتب میں اس مسئلے سے متعلّق رہنمائی مفسر کے سامنے موجود نہ ہو تو قرآنی آیات کا معنیٰ و مفہوم سمجھنے میں اسے دقّت ہوتی ہے۔مولانا فرماتے ہیں:
"تأويل أكثر آيات القرآن التي تشير إلى التوراة،وزعم المفسرون أنها تتعلّق بالقرآن،مثلًا آية:﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾وآية:﴿فَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ﴾" [1]
کہ قرآن کی ان بہت سی آیتوں کی تاویل ہو سکے گی جو درحقیقت تورات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں لیکن ہمارے مفسرین ان کو قرآن سے متعلّق خیال کرتے ہیں۔مثلاً آيتِ کریمہ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾اور آیتِ کریمہ:﴿فَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ﴾
سابقہ صحائف سے متعلّق فراہی اُصولِ تفسیر کا جائزہ
اگر اُصولی اور نظری بحث کی جائے تو سابقہ صحائف سے متعلّق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اُصولوں میں،جمہور کے اُصولِ تفسیر کی روشنی میں کوئی بڑی قابلِ اعتراض بات نظر نہیں آتی ہے لیکن جب مولانا اپنے ان اصولوں کی تطبیق کرتے ہیں تو اس میں ان کی غلطیاں بہت صریح اورواضح ہیں۔بعض اوقات تو مولانا اپنی مزعومہ تفسیر کے نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کو توڑتے ہیں اور ایک ایسی تفسیر سامنے لاتے ہیں جس پرانہیں اپنے اصول تفسیر کی تطبیق سے پہلے ہی اطمینان حاصل ہو چکا ہوتا ہے۔بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نے اصول اس لیے نہیں بنائے کہ وہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیر کریں بلکہ ان اصولوں کے بنانے کا مقصد مولانا کے نزدیک اپنی تفسیر کو وجۂ جواز فراہم کرنا تھا،یعنی مولانا کے نزدیک اصل تفسیر ہے اور اس کے بعد اُن کے اصولوں کی باری آتی ہے۔اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اصولِ فقہ کے مضمون میں جھانکیں تو وہاں ہمیں یہ فرق متکلمین(شوافع وغیرہ)اور فقہاء(احناف)کے اصولی منہج میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔متکلمین کے ہاں اصول پہلے ہیں اور فروع بعد میں،جبکہ فقہاء کے ہاں فروع پہلے ہیں اور پھر ان فروع کی روشنی میں اُصول مرتّب کیے گئے ہیں۔[2]
پہلی مثال
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اگرچہ مکمل قرآن کی تفسیرتو بیان نہیں کی ہے لیکن جس قدر بھی تفسیر انہوں نے کی ہے اس میں وہ ممکنہ حد تک اپنی تفسیر کو اپنے اصولوں کے مطابق دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔قرآنِ مجید میں سیدنا موسیٰ کا قصّہ تقریباً 28 پاروں میں مختلف اسالیب،پیرائے اور الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ منقول ہے،جبکہ بعض مقامات پر یہ قصّہ تفصیل سے بھی ذکر ہوا ہے،جس میں ایک اہم واقعہ سیدنا موسیٰ کا بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے فلسطین کی طرف نکلنا ہے اور اس دوران رستے میں خلیجِ سویز یا خلیجِ عقبہ کو عبور کرنا ہے۔قرآن کریم کے بیان کے مطابق جب سیدنا موسیٰ خلیجِ سویز یا عقبہ
|