Maktaba Wahhabi

504 - 535
کے پاس پہنچے تو انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا پانی پرمارا اور پانی دو چٹانوں کی مانند دائیں بائیں کھڑا ہو گیا،درمیان میں ایک خشک رستہ بن گیا اور سیدنا موسیٰ اس دوران خلیج کو عبور کر گئے۔جب فرعون اور اس کے لشکروں نے بھی اس خشک رستے سے خلیج کو پار کرناچاہا تو اللہ نے پانی کو آپس میں ملا دیا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہو گیا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ اس واقعے کی تشریح و تفسیر سابقہ صحائف کی روشنی میں کچھ یوں کرتے ہیں: حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت قرآن اور بائبل دونوں میں اجمالاً اور تفصیلاً دونوں طرح بار بار بیان ہوئی ہے لیکن قرآن کی کسی ایک ہی سورہ میں پوری سرگزشت ایک جگہ نہیں بیان ہوئی ہے بلکہ ایک مشہور داستان کی طرح مختلف مقامات میں اس کی طرف اشارات کیے گئے ہیں۔البتہ تورات میں اس کی پوری تفصیل ایک ہی سلسلہ میں بیان ہوئی ہے اور اس واقعہ میں ہوا کے عجیب و غیرب تصرّفات کو جو دخل ہے اور جس کی طرف قرآن نے صرف سرسری اشارہ کیا ہے،تورات نے اس کی بھی تفصیل کی ہے۔سفر خروج 14:21 میں واقعہ کی نوعیت یہ بیان کی گئی ہے: ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک بنا دیا اور پانی دو حصہ ہو گا۔‘‘ یہ پوربی آندھی رات بھر چلتی رہی اور صبح کو تھم گئی۔ہوا کے زور نے سمندر کا پانی مغرب کی طرف خلیجِ سویز میں ڈال دیا اور مشرقی خلیج،خلیجِ عقبہ کو بالکل خشک چھوڑ دیا۔پھر جب آندھی تھم گئی تو پانی اپنی جگہ پھیل گیا اور موسیٰ کا تعاقب کرنے والی جماعت غرق ہو گئی۔اس کی تصدیق قرآنِ مجید سے بھی ہوتی ہے۔سورۂ دُخان میں ہے:﴿فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ()وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ﴾’’پس میرے بندوں کو رات کے وقت نکال لے جاؤ،تمہارا تعاقب کیا جائے گا اور سمندر کو ساکن چھوڑدو،بے شک وہ غرق ہونے والی فوج ہے۔‘‘﴿وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾میں،﴿رَهْوًا﴾کے معنی سکون کے ہیں اور دریا کا سکون ظاہر ہے کہ ہوا کے سکون سے ہوتا ہے ...خلاصہ اس ساری تفصیل کا یہ نکلا کہ حضرت موسیٰ کو اللہ عزو جل نے تند ہوا کے ذریعہ نجات بخشی اور فرعون اور اس کی فوجوں کو نرم ہوا کے ذریعہ سے ہلاک کر دیا یعنی رحمت اور عذاب دونوں کے کرشمے ہوا ہی کے عجیب و غریب تصرّفات کے ذریعہ سے ظاہر ہوئے۔[1] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآن اور تورات کا تقابل کرتے ہوئے اس واقعے میں بائبل کی تفصیلات کو اصل بنایا ہے اور ان تفصیلات کے ذریعے قرآن کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے،حالانکہ اس واقعے میں قرآن اور بائبل کے بیانات میں اختلاف ہے اور اختلاف کی صورت میں مولانا کا موقف یہ تھا کہ قرآن کا فیصلہ جاری ہو گا۔قرآن جب اس واقعے کو تفصیل سے بیان کرتا ہے تو وہ اس میں کسی ایسی زور کی ہوا کا تذکرہ نہیں کرتا کہ جس کی وجہ سے سمندر کا پانی ایک خلیج سے دوسری خلیج میں داخل ہو گیا ہو اور سیدنا موسیٰ نے جس خلیج کو عبور کرنا تھایعنی خلیجِ عقبہ،اس کا پانی دوسری خلیج یعنی خلیجِ سویز میں چلا گیا اور خلیجِ عقبہ خالی ہو گئی پس سیدنا موسیٰ نے خلیج عبور کر لی۔جب فرعون نے خلیجِ عقبہ کو عبور کرنا چاہا تو ہوا تھم گئی جس کی وجہ سے خلیجِ سویز میں گیا ہوا خلیجِ عقبہ کا پانی واپس آ گیا اور فرعون غرق ہو گیا۔مولانا کی اس اسرائیلی تفسیر کا اگر ہم قرآن کی روشنی میں جائزہ لیں تو یہ قرآن کے بیان کے خلاف ہے۔
Flag Counter