Maktaba Wahhabi

505 - 535
اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ[1] کہ جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔ اس آیتِ مبارکہ میں سمندر میں رستہ بنانے کے لیے لفظِ ’فَرْق‘ استعمال ہوا ہے اور عربی زبان کا ادنیٰ سا طالبعلم بھی یہ بات جانتا ہے کہ ’فَرق‘ کا معنی کسی شے کو ’ایک طرف لگانا‘ نہیں بلکہ ’پھاڑنا‘ ہوتا ہے۔عربی زبان میں ’فَرْق‘ فاء کے فتحہ اور راء کے سکون کے ساتھ بالوں میں سے مانگ نکالنے کو بھی کہتے ہیں،اور مانگ بالوں کے درمیان میں سے کہیں سے بھی نکالی جائے وہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے لہٰذا ’فرق‘ کا معنی کسی شے کو دو حصّوں میں تقسیم کرنا ہے نہ کہ ایک ہی طرف کرنا۔پس اگر کوئی شخص اپنے سارے بالوں کا رُخ ایک طرف پھیر دے تو اسے مانگ نکالنا نہیں کہیں گے۔اسی طرح اس مادے سے ’فراق‘ کا لفظ جدائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور جدائی بھی دو اشیاء کے مابین ہوتی ہے۔اسی طرح ’فَرَق‘ فاء اور راء کے فتحہ کے ساتھ دانتوں کے خلا کو بھی کہتے ہیں اور یہ خلا بھی دو دانتوں کے مابین ہی ہو گا۔اسی طرح اس مادے سے لفظِ ’فرقان‘ حق اور باطل کے مابین فرق کرنے والی شے کیلئے بولا جاتا ہے۔اسی طرح ’فریق‘ کا لفظ بھی کسی دوسرے کے بالمقابل بولا جاتا ہے۔پس ثابت ہوا کہ ’فَرق‘ کے معنیٰ میں دو اشیاء کا تصور بنیادی ہے،لہٰذا ’فرق‘ کا معنیٰ یہاں پر ایک ہی شے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا ہے جیسا کہ اہل لغت نے بیان کیا ہے۔[2] پس قرآن کے بیان کے مطابق خلیج دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔پانی کا ایک حصہ دائیں طرف تھا اور دوسرا بائیں طرف،اور درمیان میں خشک رستہ بن گیا تھا جسے موسیٰ نے عبور کیا۔اسکے برعکس بائبل اور مولانا فراہی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق خلیجِ عقبہ،جسے موسیٰ نے عبور کرنا تھا،کا پانی ہوا کے زور سے ایک طرف موجود خلیج سویز میں چلا گیا تھا،لہٰذا یہ تفسیر قرآن کے الفاظ کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَى[3] کہ البتہ تحقیق ہم نے سیدنا موسیٰ کی طرف وحی کی ہے کہ آپ میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر چلیں۔پس ان کے لیے دریا میں ایک خشک رستہ بنائیں،آپ کو نہ تو پکڑے جانے کا ڈر ہو گا اور نہ ہی ڈوبنے کا خدشہ۔ اس آیت میں رستہ بنانے کی نسبت سیدنا موسیٰ کی طرف کی گئی ہے نہ کہ ہواؤں کی طرف،اور قرآن کی دوسری آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا موسیٰ کو یہ رستہ بنانے کا حکم یوں ہوا کہ وہ اپنا عصا پانی پر ماریں تو اس سے پانی دو حصّوں میں تقسیم ہو جائے گا اور درمیان میں رستہ بن جائے گا۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے:
Flag Counter