ہو گیا لہٰذا ہم اس پر مطلع نہیں ہو سکے۔سیوطی رحمہ اللہ نے خود بھی اس موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس کے متعلق لکھتے ہیں:
"وألفت فیه تألیفا موجزا لم یؤلّف مثله في هذا النوع سمّیته لباب النقول في أسباب النزول"[1]
کہ اس موضوع پر میری بھی ایک یگانہ روزگار تالیف ہے جس کا نام میں نے لباب النقول فی اسباب النزول رکھا ہے۔
بہرحال اسبابِ نزول کی اہمیت کے پیش نظر علما نے اس کو مستقل فن کی حیثیت دی ہے اور اس پر کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اسباب کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ(1762م)نے اپنے رسالہ الفوز الکبیر میں اس کی معرفت کو المواضع الصّعبة(مشکل مقامات)سے شمار کیا ہے اور اس فن کے مباحث کو منقّح کرنے کی سعیٔ مشکور فرمائی ہے لہٰذا جن علماء نے اس کی افادیت اور تاریخی حیثیت کو ’لاطائل‘(بے فائدہ)کہا ہے،ان کا موقف سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور دیگر بعض علماء نے اس میں غلو کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اسبابِ نزول کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن نہیں ہو سکتی۔سیوطی رحمہ اللہ اس فن کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن پر اِقدام کو حرام قرار دیتے ہیں،تاہم یہ دونوں گروہ اِفراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔اصل اور صحیح موقف ان کے بین بین ہے جیسا کہ ابن دقیق العید(702ھ)اور ابوالفتح قشیری رحمہما اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس فن کی معرفت فی الجملہ معاوِن ہو سکتی ہے ورنہ تفسیر قرآن صرف اس پر موقوف نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"معرفة سبب النّزول تعین على فهم الآية فإن العلم بالسّبب یورث العلم بالمسبّب." [2]
کہ سببِ نزول کی معرفت آیت کے سمجھنے میں معاون ہے کیونکہ سبب کی معرفت کے ذریعے مسبّب تک رسائی ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ یا تابعین نے جو اسباب نزول بیان فرمائے ہیں۔ان کی دو قسمیں ہیں:اول وہ جن کی طرف خود آیات میں اشارہ پایا جاتا ہے۔مثلاً مغازی یا دیگر واقعات کہ جب تک ان واقعات کی تفصیل سامنے نہ ہو متعلقہ آیت میں مذکورہ جزئیات ذہن نشین نہیں ہو سکتیں۔اس قسم کے اسباب نزول کے متعلق تو واقعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مفسر قرآن کیلئے ان پر عبور لازم ہے۔یہی وجہ ہے کہ علما ء نے تاریخ جاہلیت اور مغازی کی معرفت کو قرآن فہمی کیلئے لازمی قرار دیا ہے کیونکہ متعلقہ آیات میں ان کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں۔لیکن دوسری قسم کے اسباب وہ ہیں جنہیں صحابہ یا تابعین کسی آیت کے تحت نزلت أو أنزل الله في کذا کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں۔
پہلی قسم کے اسباب کے بیان میں چونکہ صحابہ کے اجتہاد کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ سراسر روایت وسماع پر مبنی ہوتا ہے۔اس بنا پر علماء نے بلا اختلاف اس کو حدیث مسند کا درجہ دیا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وإذا ذکر سببا نزلت عقبه فإنهم كلهم یدخلون مثل هذا في المسند،لأن مثل ذلك لا یقال بالرأي"[3]
|