کے ساتھ مل کر 1906ء میں ایک انجمن ’اصلاح المسلمین‘ قائم کی،اس کےناظم مولوی محمد شفیع مقرر ہوئے۔انجمن کا عام جلسہ ہر مہینہ آس پاس کے قصبہ میں ہوتا تھا اور اصلاح وترک بدعات کے مواعظ اس میں بیان کئے جاتے تھے۔اس کے سالانہ جلسے بھی بڑے پیمانہ پر ہوتے تھے،ان میں وقتاً فوقتاً مولانا عبد الحق صاحب دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری(1948ء)جیسے مشاہیر علماء آتے اور لوگوں کو مستفید کرتے۔اسی سلسلہ میں ایک اسلامی مدرسہ بنانے کا خیال پیدا ہوا جس کے نتیجے میں مدرسۃ الاصلاح کی بنیاد رکھی گئی۔[1]
انجمن کے سرپرست مولانا محمد شفیع نے 1909ء بمطابق 1326ھ سرائے میر میں مدرسۃ الاصلاح قائم کیا۔ابتداء میں یہ معمولی نوعیت کا تھا،بعد میں مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اس میں دلچسپی لی اور اس کے اغراض ومقاصد مرتب کیے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے اس لئے نصابِ تعلیم مرتب کیا۔یوں یہ مدرسہ ترقی کر گیا۔
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ مدرسہ کے قیام کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مولانا کا الٰہ آباد ہی میں قیام تھا کہ ان کے اہل برادری میں ایک نئے عربی مدرسہ کے قیام کی تحریک پیدا ہوئی۔مولاناشبلی اور مولانا حمید الدین فراہی صاحب مرحوم نے اس تحریک کی عنان اپنے ہاتھ میں لی اور 1910ء میں اعظم گڑھ میں مولانا حمید الدین صاحب کے قریہ پھریہا سے ایک اسٹیشن بعد سرائے میر نام کے مقام پر آبادی سے باہر ایک باغ میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی،مولانا شبلی نے اس کی نظامت کا بار مولانا حمید الدین صاحب کے کندھے پر رکھنا چاہا،19اپریل10ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’کیا تم چند روز سرائے میر مدرسہ میں قیام کر سکتے ہو،میں بھی شائد آؤں اور اس کا نظم ونسق درست کر دیا جائے،اس کوگرو کل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنانا چاہیے،یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمحِ زندگی ہو۔‘‘
اس مدر سہ نے رفتہ رفتہ ان دونوں بزرگوں کے زیرِ ہدایت ترقی شروع کی اوریہ لوگ کبھی کبھی اس کو دیکھتے۔‘‘[2]
مولانا فراہی رحمہ اللہ مدرسہ الاصلاح کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستہ تھے۔حیدر آباد سے واپسی کے بعد انہیں موقع ملا کہ وہ بحیثیت ناظم اسے اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنائیں۔مدرسہ کی انتظامی ہیئت میں ان کا عہدہ ناظم کا تھا،جو سب سے بڑا عہدہ ہے،لیکن یہ اعزازی تھا۔یہ عہدہ ان کو باقاعدہ انتخاب کے بعد 28 مئی 1916ء کو پیش کیا گیا،جس پر وہ بلا انقطاعِ تسلسل اپنی وفات تک فائز رہے۔اس لئے وہ حیدر آباد سے واپس آئے تو اس وقت بھی ناظم تھے۔انہوں نے اپنی خدمت کے عوض مدرسہ سے کبھی کچھ نہ لیا۔اپنے تمام مصارف وہ اپنی جیب سے پورے کرتے تھے،ان کا کھانا تک گھر سے پک کر آتا تھا۔عام اساتذہ کی طرح ایک کمرے میں وہ رہتے تھے۔ان کے لئے نہ علیحدہ کوئی دفتر تھا،نہ کلاس روم۔وہ مدرسے میں پڑھاتے نہیں تھے۔درسِ قرآن جس میں مدرسے کے اساتذہ شریک ہوتے تھے ایک برامدے میں ٹاٹ یا چٹائی پر بیٹھ کر ہوتا تھا۔[3]
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’حيدر آباد سے ترکِ تعلّق کےبعد وہ اس کے معاملات سے براہِ راست دلچسپی لینے لگے اور 1925ء سے30ء(جو ان کا سنِ وفات ہے)تک تو انہوں نے اپنے وقت اور محنت کا بڑ ا حصہ اس مدرسہ کی ہی خدمت پر صرف فرمایا،ہر ہفتہ تین دن شب ورَوز
|