Maktaba Wahhabi

534 - 535
اور اس کی تفسیر پوچھتا تھا۔‘‘[1] سفیان ثوری‏ٌ رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: ’’ جب مجاہد سے تفسیر ملے،تو یہ تمہارے لئے کافی ہے۔[2] تفسیر تابعین کے بارے میں محمد عبد العظیم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’تابعین سے منقول تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض نے اسے تفسیر بالماثور قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً صحابہ سے نقل کی ہے اور بعض نے تفسیربالرائے قرار دیا ہے۔‘‘[3] محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہم نے تابعین سےمروی تفسیر کو تفسیر بالماثور میں ہی نقل کیا ہے۔اگرچہ اس میں اختلاف ہے،کیونکہ ہم نے کتب تفسیر بالماثور جیسے ابن جریرطبری وغیرہ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی تفاسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اقوال پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ وہ تابعین سے بھی نقل کرتے ہیں۔‘‘[4] گویا تفسیر بالماثور وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے منقول ہو اور یہی ہمارے لئے حجت ہے۔اگرچہ بعض اہل علم نے کبار تابعین کی تفاسیر کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ جوتفسیرمذکورہ مصادرکے علاوہ افرادواہل علم سے وارد ہو(خواہ وہ قرآن یاحدیث سے ہی کیوں نہ ہو)تو وہ تفسیر بالرّائے ہے،جس کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ تفسیر بالرائے محمود:اس سے مرا دوہ تفسیر ہے،جو علم پر مبنی ہو۔اس کی پھر دو انواع ہیں: 1۔ سلف کے اقوال میں سے کسی قول کو قرینہ کی بناء پر ترجیح دے دینا بشرطیکہ ترجیح دینے والا شخص اہل علم میں سے ہو اور اپنی خواہش یا ذاتی میلان کی بناء پر ترجیح نہ دے اور وہ ان اقوال کے درمیان واقع اختلاف کو بھی جاننے والا ہو۔ 2۔ کوئی نیا معنی بیان کرنا بشرطیکہ وہ معنی نہ تو سلف کی تفاسیر کو باطل کرتا ہو اور نہ ہی آیت کے معنی میں کوئی کمی کرتا ہو۔ مذکورہ قواعد کی پابندی کرتے ہوئے تفسیر قرآن کرنا تفسیر بالرائے محمود کے قبیل سے ہے۔ 2۔ تفسیر بالرّائے مذموم:اس کی متعدّد صورتیں ہیں مثلاً جہالت یا خواہشاتِ نفس کے مطابق تفسیر کرنا۔متبدعہ،رافضہ اور صوفیاء وغیرہ کی اغلب تفاسیر اسی قبیل سے ہیں۔[5] مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور ان کے متوسلین نے قرآنِ مجید کی بہت خدمت کی۔انہوں نے تفسیر وتبیین قرآن کو اپنی زندگی کا
Flag Counter