Maktaba Wahhabi

535 - 535
مقصد اور اوڑھنا بچھونا بنا یا ہے۔انہوں نے تفسیر القرآن بالقرآن کے ساتھ ساتھ قرآنی سیاق و سباق اور عربی زبان کی معرفت کو فیصلہ کن اہمیت دی ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کی بعض سورتوں کی شرح اور دیگر مؤلفات کا جائزہ لیا جائے تو تفسیر قرآن کے درج ذیل اصولوں کو مستنبط کیا جاسکتا ہے۔(۱)تفسیر قرآن بذریعہ نظم قرآن،(۲)تفسیر قرآن بذریعہ عربی معلّیٰ،(۳)تفسیر قرآن بذریعہ قرآن مولانا نے مذکورہ تینوں اصولوں کو بنیادی اور قطعی مصادر قرار دیا ہے۔پھر انہوں نے درج ذیل چندمزید مصادر سے بھی تفسیر مستنبط کی ہے:(۱)احادیث وآثار صحابہ،(۲)قدیم محفوظ آسمانی صحائف،(۳)قوموں کی ثابت شدہ تاریخ۔لیکن مذکورہ مصادر کو انہوں نے خبری اور ثانوی ماخذ قرار دیا ہے۔کیونکہ یہ ظنی ہیں اور ان کے نزدیک ان پر مکمل اطمینان نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی شخص تفسیر قرآن کیلئے مختلف اُصول ومناہج قائم کرسکتا ہے،لیکن صرف وہی تفسیر حجت ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے منقول ہوگی۔اس کے علاوہ دیگر تمام تفاسیر علمی نکتے تو ہوسکتے ہیں،جن میں صحت وغلطی دونوں کا امکان ہے،لہٰذا انہیں مرادِ الٰہی نہیں کہا جا سکتا۔ خیر القرون سے ماثور تفسیر کے علاوہ اگر کوئی شخص تفسیر القرآن بالقرآن یا تفسیر القرآن بالحدیث کرتا ہے،تو اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ یہی مرادِ الٰہی اور حجّت ہے۔بلکہ بسا اوقات مفسر اپنے ذاتی میلان،مذہبی تعصّب اور نفسانی خواہشات کی بناء پر ایک آیت کی ایسی تفسیر دیتا ہے جو قرآن و سنت دونوں کے مخالف ہوتی ہے۔مثلاً مولانا فراہی رحمہ اللہ نے﴿إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ[1] میں لفظ﴿نَاظِرَةٌ﴾کا معنی دیکھنے کی بجائے،انتظار کرنا لیا ہے اور بطور دلیل قرآن مجید کی یہ آیت﴿فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ[2] پیش کی ہے۔ اگرچہ ان کے دعویٰ کے مطابق یہ تفسیر القرآن بالقرآن اور قطعی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس تفسیر میں اپنے ذاتی میلان کے مطابق استدلال کیا ہے،حالانکہ صحيح احاديث میں اسی آیت مبارکہ کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العٰلمین کے دیدار سے کی ہے۔[3] خلاصہ یہ کہ تفسیر بالماثور صرف وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے اس انداز سے منقول ہو کہ انہوں نے کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہو کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مقدّمہ التفسیر کا اختتام بھی اسی بنیادی اُصول کو ذکر کرکے کیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کی تفسیر چونکہ وحی پر موقوف ہے چنانچہ تفسیر بالرّائے کرنا انتہائی خطرناک امر ہے۔حتیٰ کہ انہوں نے دیگر علماء کے بالمقابل تفسیر بالرّائے محمود کو بھی تفسیر میں شامل نہیں کیا،کیونکہ ان کے نزدیک تفسیر صرف وہی ہے جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہو۔انہوں نے آخری صفحات میں صحابہ وتابعین کے متعدّد قول نقل فرمائے ہیں جن میں ایسی تفسیر کی شدید مذمّت کی گئی ہے،جس کا علم نہ ہو۔
Flag Counter