1۔ قرآن کی تفسیر اللہ کا حق ہے جو کوئی دوسرا نہیں لےسکتا۔جیسا کہ سورۂ رحمٰن اورسورۃ القیامۃ کی آیات بیّنات سے واضح ہوا۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمّہ قرآن کریم کی ترسیل بھی تھی اور اللہ کی طرف سے وحی شدہ اس کی تبیین بھی،جیسا کہ سورۂ مائدہ اور نحل کی آیات میں ثابت ہوا۔ان دونوں ذمہ داریوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحسن وبخوبی سر انجام دیا۔
3۔ قرآنِ مجید کے واحد شارح اللہ عزو جل ہیں،ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اللہ کی مراد کو پہنچنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔گویا ہمارے لئے قرآن کے واحد مفسر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔کیونکہ اپنی کوئی بات نہیں کرتے،جو کچھ ان کی زبان مبارک سے نکلتا ہے،وحی ہوتا ہے،فرمانِ باری ہے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىOاِنْ هُوَ اِلَّاوَحْيٌ يُّوْحٰى﴾[1]
چنانچہ معلوم ہوا کہ تفسیر کے بنیادی اُصول دو ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث۔اور یہ اُصول اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں،حقیقت میں ایک ہی ہیں۔
تفسیر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کی تفاسیر بھی ہمارے لئے حجّت ہیں کیونکہ وہ فقہی تعصّبات سے بالاتر تھے۔انہوں نے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ مجید پڑھا اور سمجھا تھا۔علاوہ ازیں وہ نزولِ وحی کے حالات کے عینی شاہد بھی تھے۔اس کے باوجود اگر کوئی آیت یا کلمہ انہیں سمجھ نہ آتا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے،جس کی کئی مثالیں دوسرے باب میں گزر چکی ہیں،لہٰذا صحابہ کرام کی ایسی تفاسیر جن میں رائے کا دخل نہ ہو،حدیثِ مرفوع کے قائم مقام ہوتی ہیں،بشرطیکہ وہ صحابی اسرائیلیات سے استفادہ نہ کرتا ہو۔اور اگرصحابہ کسی کلمہ کی تفسیر لغتِ عرب سے بھی کریں تو اگرچہ وہ حدیثِ مرفوع کے حکم میں تو نہیں،لیکن وہ بھی حجت ہے،کیونکہ وہ اہل زبان تھے،قرآن پاک ان کی زبان اور محاورہ میں نازل ہوا تھا۔اللہ عزو جل صحابہ کرام پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾[2]
کہ ہم نے اسے عربی قرآن نازل کیا ہے،تاکہ تم سمجھ سکو۔
صحابہ کرام کے بعد تفسیر تابعین کا مقام ومرتبہ آتا ہے،لیکن ان کی تفسیر کی حجّت میں اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔كبار تابعین جیسے مجاہد بن جبر،سعید بن جبیر،عکرمہ،عطا،حسن بصری،سعید بن مسیب،ابوالعالیہ،ربیع،قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ کی تفاسیر کی حجیت میں اہل علم کا میلان ظاہر ہے۔[3]
مجاہد بن جبر رحمہ اللہ تو علم تفسیر میں اللہ عزو جل کی ایک نشانی تھے،وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے مصحف قرآن کو شروع سے آخر تک تین مرتبہ سیدنا ابن عباس کے سامنے پیش کیا۔ہر آیت پرانہیں ٹھہراتا
|