ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ﴾[1]
کہ لیکن انہوں نے رو گردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب(کا پانی)بھیج دیا۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً﴾[2]
کہ بے شک ہم نے ان پر ایک زورکی آواز بھیجی۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا﴾[3]
کہ پس ان میں سے بعض پر ہم نے تند و تیز ہوا بھیجی۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ﴾[4]
کہ پس تم پر تیز وتند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے۔
مزید فرمایا:﴿وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ﴾[5]
کہ اور وہ تم پر آسمان سے ایک بگولا بھیجے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ﴾[6]
کہ تا کہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں۔
سورۂ فیل کی آیت﴿تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ﴾[7] بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ کی تاویل کا ردّ کرتی ہے کیونکہ قرآن كريم نے صرف پتھروں کا نہیں،بلکہ سنگ گل کے پتھروں کا ذکر کیا ہے اور﴿مِنْ سِجِّيلٍ﴾کی قید کا اضافہ کیا ہے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں سنگ گل کے پتھرنہیں پائے جاتے تھے۔جب یہ پتھر وہاں نہیں تھے تو اہلِ مکہ نے یہ پتھر ابرہہ کے لشکر کو کیسے مارے ؟[8]
3۔ جہاں تک کلامِ عرب سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے استدلال کا معاملہ ہے تو اشعار اس قدر واضح نہیں ہوتے کہ ان کو نثر کے مقابلے میں ترجیح دی جائے۔نثر یعنی احادیث مبارکہ،صحابہ وتابعین کے اقوال سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ سنگ باری چڑیوں نے کی
|