اس کی تاویل سمجھنے سے وہ قاصر رہے۔تورات میں بخت نصر اور دانیال نبی کے بھی بعض اسی قسم کے خواب مذکور ہیں،جن کی تاویلیں ان پر بہت بعد میں کھلیں۔یہی صورت حال بعض مرتبہ انبیاء علیہم السلام کو بھی پیش آجاتی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کی اس تحقیق کی بناء پر مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ(1914ھ)نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’اکابر صوفیا نے لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو خواب دکھائے جاتے ہیں،دو قسم کے ہوتے ہیں:عینی اور تمثیلی۔عینی میں بعینہٖ وہی چیز مقصود ہوتی ہے جو خواب میں نظر آتی ہے۔تمثیلی میں تشبیہ اور تمثیل کے پیرایہ میں کسی مطلب کو پورا ادا کرنا ہوتا ہے۔حضرت ابراہیم کو جو خواب دکھایا گیا تھا،اس سے مراد یہ تھی کہ بیٹے کو کعبہ کی خدمت کیلئے نذر چڑھا دیں،یعنی وہ کسی اور شغل میں مصروف نہ ہوں،بلکہ کعبہ کی خدمت کیلئے وقف کر دئیے جائیں۔تورات میں جا بجا قربانی کا لفظ ان معنوں میں آیا ہے۔حضرات ابراہیم نے اس خواب کو عینی خیال کیا اور بعینہٖ اس کی تعمیل کرنی چاہی۔یہ اجتہادی غلطی تھی جو انبیاء علیہم السلام سے ہو سکتی ہے۔اس بناء پر گو حضرت ابراہیم اس فعل سے روک دئیے گئے لیکن خدا نے ان کی حسن نیت کی قدر کی اور فرمایا:﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾‘‘ [1]
جمہور اہلِ علم کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کا ایک حصّہ ہوتے ہیں،لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ نبی کو کوئی خواب سمجھنے میں غلط فہمی ہو۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے موقف کے ثبوت میں جو دلائل پیش کیے ہیں،وہ سطحی ہیں۔بخت نصر اور سیدنا یوسف کے ساتھی نبی نہیں تھے،لہٰذا ان کا خواب نہ سمجھنا کوئی دلیل نہیں ہے۔دانیال نبی کے خوابوں کے بارے مولانا نے تورات کو بطور دلیل پیش کیا ہے،جو ان کے بیان کے مطابق تحریف شدہ ہے اور اس میں صحت وخطا دونوں امکانات برابر سطح پر موجود ہیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اس نقطۂ نظر سے متاثر ہو کر جب بعض منکرین حدیث نے اسے قربانی کی سنّت کے ردّ کے طور پر پیش کیا تو مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے اس استدلال کا جواب بایں الفاظ نقل کیا:
’’قرآنِ مجید میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا اشارہ پایا تھا۔اس کے امتثال میں واقعی اپنے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے۔غور کیجئے!کتنا عظیم الشّان واقعہ ہے اور﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾کی روح کو کس شاندار طریقے سے پیش کر رہا ہے۔لیکن اب دیکھئے کہ عرشی صاحب اور ان کے ہم خیال حضرات محض قربانی کی مخالفت کی وجہ سے قرآن کے اس نہایت سبق آموز قصّے کو کس طرح مسخ کرتے ہیں۔ان کی تاویل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے در اصل خواب کا مطلب ہی غلط سمجھا۔جوشِ ایمانی تو ان میں ضرور تھا اور شرابِ عشق کی سر مستی تک پہنچا ہوا تھا،مگر فہم اتنی بھی نہ تھی جتنی عرشی صاحب اور مولوی احمد الدین صاحب مرحوم کو ارزانی ہوئی ہے۔‘‘ [2]
4۔ سیدنا ابراہیم نے جب اپنے بیٹے کو اپنا خواب سنایا تو بیٹے نے جوابا کہا:آپ اپنا کام کریں،ان شاء اللہ!آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔جب قربانی سے مراد خدا کے گھر کیلئے وقف کرنا ہے تو اس پر صبر کے کیا معنی ہیں۔یہ تو ایک اعزاز کی بات ہے۔کیا سیدنا اسمٰعیل معاذ اللہ !اللہ کے گھر کی خدمت کو ناپسند کرتے تھے جو انہوں نے کہا کہ میں صبر کروں گا۔
|