مطابق بنی اسرائیل میں ہیکل کیلئے اپنی اولاد کو وقف کرنے کی رسم بہت عام تھی۔اور کوئی شے عام اسی صورت ہو سکتی ہے جب وہ آسان ہو۔لہٰذا اگر قربانی سے مراد خدا کے گھر کی خدمت کیلئے نذر کرنا ہوتواس صورت میں یہ واقعہ سیدنا ابراہیم کی کوئی امتیازی خصوصیت اور بڑی آزمائش قرار نہیں پاتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ﴾[1]
کہ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔
3۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کی جرأت اور حوصلہ کو داد دیں کہ ایک طرف تو وہ سیدنا ابراہیم کے خواب سے مراد حقیقت کی بجائے تمثیل لیتے ہیں،دوسری طرف جب انہیں یہ مشکل دَر پیش ہوتی ہے کہ سیدنا ابراہیم کے خواب کو تمثیل قرار دینے کی صورت میں قرآن کی صریح آیت﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ﴾[2] کی کیا تاویل ممکن ہوگی؟ تو اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ سیدنا ابراہیم کو خواب سمجھنے میں غلطی لگی،انہوں نے خواب سے مراد حقیقت میں ذبح کرنا لیا،حالانکہ اس خواب سے مراد اللہ کے گھر کیلئے وقف یا نذر کرنا تھا۔پس سیدنا ابراہیم نے اجتہادی خطا کی وجہ سے سیدنا اسمٰعیل کو ذبح کرنے کا اقدام کیا۔اور اللہ عزو جل نے سیدنا ابراہیم کے اس ذبح کے عمل کو پورا نہ ہونے دے کر ان کی اجتہادی خطا میں رہنمائی فرما دی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"الكشف عن غيب ربّما يكون بالرّؤيا. وهي أحيانًا تأتي مثل فلق الصّبح،وأحيانًا تكون في حجاب. ومثالها مثال الكلام،فإنّه ربّما يدلّ على مفهومه بصريح القول،وربما يدلّ عليه بوجه من وجوه المجاز من الاستعارة والتّمثيل. فالقسم الأخير من الرّؤيا يحتاج إلى تأويل،والتأويل ربّما يكون غامضًا. وحينئذٍ ربّما يخفى على صاحب الرّؤيا،كما خفي تأويل رؤيا صاحبي يوسف عليه السّلام عليهما،ورؤيا الملك عليه،ولذلك نظائر في التوراة مثل رؤيا الملك بُختنصّر،ورؤيا النّبي دانيال عليه السّلام،الّتي كشف له تأويلها من بعد،وهكذا يكون أمر الأنبياء." [3]
كہ غیب کے اسرار واحوال کبھی کبھی رؤیا کی شکل میں منکشف ہوتے ہیں۔یہ رؤیا کبھی تو سپیدۂ صبح کی مانند بالکل روشن اور واضح ہوتی ہے اور کبھی تمثیلی رنگ میں ہوتی ہے۔جس طرح کلام کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں،کوئی کلام نہایت تصریح کے ساتھ اپنے مفہوم کو بتا دیتا ہے۔کوئی استعارہ کے رنگ میں ہونے کی وجہ سے تاویل وتعبیر کا محتاج ہوتا ہے۔اسی طرح رؤیا کی بھی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔یہ دوسری قسم کی رؤیا تعبیر کی محتاج ہوتی ہے اور تعبیر بعض اوقات اس قدر دقیق ہوتی ہے کہ خود صاحبِ رؤیا سے بھی مخفی رہ جاتی ہے۔حضرت یوسف کے دونوں جیل کے ساتھیوں اور پھر بادشاہ نے جو خواب دیکھا تھا،قرآن مجید میں مذکور ہے کہ
|