ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ يَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ﴾[1]
کہ اسمعیل نے کہا اے میرے ابا جان!جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے،وہ کریں،عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
5۔ اہم تر بات یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ سیدنا اسمعیل کے دوڑنے کی عمر کا ہے جیسا کہ قرآن نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔اور اس وقت روئے زمین پر کون سا اللہ کا گھر موجود تھا جس کیلئے سیدنا اسمٰعیل کو وقف کرنے کا حکم دیا گیا۔کیونکہ بیت اللہ تو اس کے بعد سیدنا ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام نے مل کر تعمیر کیا ہے۔
6۔ جہاں تک تورات کا معاملہ ہے تو یہاں بھی مولانا نے اپنی اصول کا ردّ کیا ہے۔مولانا کا اُصول یہ تھا کہ جب ایک ہی واقعہ قرآن اور تورات دونوں میں مشترک بیان ہوا ہو تو تورات سے اس واقعے کی تفصیلات قبول کر لی جائیں گی۔قرآن نے سیدنا اسمعیل کے ذبح کے واقعہ کو جس طرح بیان کیا ہے،تورات نے بھی اس کو اسی طرح نقل کیا ہے لیکن مولانا تورات کی یہ تفصیل ماننے سے بھی انکاری ہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان اُمور کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اب اصل واقعہ کو پڑھئے جو کتابِ پیدائش 22:1۔19 میں بیان ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اس لئے کہ تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیر ا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔تب ابراہام نے جا کر اس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا۔‘‘[2]
تورات کی یہ تفصیل قرآن میں بیان کردہ واقعے کے ساتھ اس پہلو سے متفق ہے کہ ذبح کے واقعہ سے مراد نذر کرنانہیں تھا بلکہ حقیقی طور پر ذبح کرنا مراد تھا۔مولانا تورات کے اس صریح بیان کو قرآن کی شرح میں بیان کرنے کی بجائے تورات کی ایک مبہم عبارت کو اس کی شرح بنا کر رہے تا کہ ان کا فلسفہ ثابت ہو جائے۔لیکن اس مبہم عبارت سے بھی ان کا فلسفہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کیونکہ اس مبہم عبارت میں’ہلانے کی قربانی‘ کا بیان ہے اور سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے کی جوقربانی دی تھی وہ ’سوختنی کی قربانی‘ تھی۔تورات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں قربانی کی کئی ایک اقسام تھیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات اور شرائط تھیں جنہیں تورات نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔تورات کے بیان کے مطابق خدا کے گھر کے لیے نذر کرنے کو ’ہلانے کی قربانی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خدا کے حضورکسی جانور کو ذبح کرنے کو ’سوختنی کی قربانی‘ اور ’خطا کی قربانی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔سیدنا ابراہیم سے اپنے بیٹے کی قربانی کا جو مطالبہ ہوا وہ تورات کے بیان کے مطابق ’سوختنی کی قربانی‘ کا مطالبہ تھا جیسا کہ مذکورہ بالا تورات کی عبارت میں موجود ہے۔لہٰذا ایک قسم سے دوسری قسم مراد لینا درست نہیں ہے۔
|