بھی اللہ کے عذاب ہی کی ایک قسم ہے اور عذاب کی یہ قسم اہل مکہ میں معروف تھی۔قرآن ایک مقام پر مشرکین مکہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَإِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾[1]
کہ جب انہوں نے کہا:اے اللہ!اگر یہ قرآن حق ہے اور آپ کی طرف سے ہے تو آپ ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسائیں یا ہمارے پاس دردناک عذاب لے آئیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں آسمان سے پتھروں کی بارش کے لیے﴿مِنَ السَّمَاءِ﴾کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن میں اس بارش کی سمت کو بھی متعین کر دیا گیا ہے۔اگر قومِ لوط پر پتھروں کی بارش آسمان سے نہیں ہوئی تھی تو اہلِ مکہ عذاب کی اس قسم سے کیسے واقف تھے کہ اللہ عزو جل ایسا عذاب بھی بھیجتے ہیں ؟ قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ مکہ میں حجاز اور اس کے علاقے میں سابقہ اقوام پر نازل شدہ عذابوں کی تفصیلات معروف تھیں اور وہ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن انہیں ان علاقوں میں سابقہ اقوام کے کھنڈرات سے گزرتے ہوئے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کرتا ہے۔
البتہ ایک جگہ قرآن کریم نے قومِ لوط پر نازل شدہ عذاب کے لیے ’حاصب‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔
اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ﴾[2]
کہ بلاشبہ ہم نے ان پر پتھروں والی ہوا بھیجی سوائے لوط کے خاندان کے،ہم نے انہیں سحری کے وقت نجات دی۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ عزو جل نے﴿حَاصِبًا﴾کا لفظ استعمال کیا ہے۔عربی زبان میں ’حصباء‘ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو کہتے ہیں اور ’حاصب‘ اسی مادے سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ پتھروں والی شے ہے۔اب اس سے مراد پتھروں والی جگہ بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ اہلِ زبان ’مکان حاصب‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں بہت پتھر ہوں اور اس سے مراد ہوا بھی ہو سکتی ہے یعنی ایسی ہوا جس میں پتھرہوں۔[3]قرآن كريم کے اس مقام کو سابقہ مقامات کے ساتھ جمع کر کے دیکھیں تو اس آیت کا معنیٰ و مفہوم یہ متعیّن ہوتا ہے کہ اللہ عزو جل نے آسمان سے صرف پتھر ہی نہیں بھیجے بلکہ ایک زور کی ہوا بھی بھیجی تھی۔پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے پتھروں کی جو بارش قومِ لوط پر ہوئی تھی اس میں ہوا بھی شامل تھی۔یہ معنیٰ جمہور مفسرین اہلِ سنت نے بیان کیا ہے۔جبکہ بعض جلیل القدر مفسرین مثلاً امام ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ نے ’حاصب‘ کا ترجمہ پتھر کیا ہے یعنی ان مفسرین کے نزدیک ہوا کا عذاب قومِ لوط پر نازل ہی نہیں ہوا اور ’حاصب‘ سے مراد بھی پتھر ہی ہے یعنی اس قدر کثرت سے ان پر پتھر برسائے گئے تھے کہ وہ پتھروں کی
|