ایک آندھی محسوس ہوتی تھی۔[1] ہمارے خیال میں یہ دونوں تفاسیر ایسی ہیں جو قرآن کی آیات میں باہم تطبیق پیدا کرتی ہیں۔اس کے برعکس مولانا فراہی رحمہ اللہ کا قرآن کی اس آیت میں لفظ ’حاصب‘ کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر مقامات کی سطحی تاویلات کرنا قرآن کی تفسیر میں ایک نامناسب طرزِ عمل ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ قومِ لوط پر نازل شدہ عذاب کے بارے قرآن اور تورات کے بیانات ملتے جلتے ہیں اور بظاہر جو اختلاف نظر آتا ہے،وہ ترجمے کی خرابی کا ہے۔مولانافرماتے ہیں:
’’یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے،وہ یہ کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قومِ لوط پر جس چیز کی بارش کی گئی اس کے بارہ میں تورات کا بیان قرآن کے بیان سے مختلف ہے۔حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ان دونوں کے درمیان جو اختلاف نظر آتا ہے وہ محض ترجمہ کی خرابی کا نتیجہ ہے۔تورات کے مترجمین اچھی طرح سمجھ نہ سکے کہ قومِ لوط پر کیا چیز برسائی گئی تھی۔اس وجہ سے انھوں نے اس کو آگ کو اور گندھک بنا دیا۔حالانکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مترجمین نے جس کو آگ کہا ہے یہ رعد اور برق ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ تورات میں اکثر رعد و برق کو آگ ہی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘[2]
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’رہی وہ بات جو لوط کی بستی کی تباہی کے سلسلہ میں تورات میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے دور سے دُھواں
اٹھتے ہوئے دیکھا تو اس سے مراد سیاہ غبار ہے جو دور سے دھوئیں کی صورت میں نظر آیا۔رہی گندھک جس کا ذکر کتابِ
پیدائش 19:24 میں ہے:’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی۔‘‘ تو اس سے مراد پتھر ہے۔جس لفظ کا ترجمہ مترجموں نے گندھک کیا ہے وہ دراصل حصباء ہے جس کے معنی سنگریزے کے ہیں ... اس سے معلوم ہوا کہ قومِ لوط پر اللہ عزو جل نے سنگریزے برسانے والی آندھی کا عذاب بھیجا جس نے ان کو اور ان کے مکانوں کو ڈھانک لیا اور اگر اس کے ساتھ تورات کا بیان بھی ملا لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے اوپر حاصب کے ساتھ ساتھ برق و رعد کا عذاب بھی آیا۔‘‘[3]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تورات کے ترجمے میں غلطی کا جو ذکر کیا ہے وہ صحیح ہو سکتا ہے لیکن تورات کے اس بیان کا کیا کریں کہ یہ گندھک یعنی پتھر آسمان سے برسائے گئے تھے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے بیان کردہ اُصول کے مطابق انہیں قومِ لوط کے واقعہ کی تفصیل تورات سے مکمل کرنی چاہیے۔قرآن نے قومِ لوط کے لیے پتھروں کے عذاب کا اثبات کیا ہے اور مولانا فراہی رحمہ اللہ کے بقول تورات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا۔اب تورات ساتھ ہی یہ بھی بیان کرتی ہے کہ یہ عذاب آسمان سے نازل ہوا تھا لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ تورات کی اس تفصیل کو صرف اس لیے ماننے سے انکاری ہیں کہ ان کا بنا بنایا فلسفہ بکھر جاتا ہے۔اگر مولانا یہاں تورات کی تفصیل کو مان لیں جیسا کہ ان کے اصولِ تفسیرکا تقاضا ہے تو مولانا کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ پتھر معجزاتی طور پر آسمان سے نازل ہوئے
|