Maktaba Wahhabi

510 - 535
جس کے بارے اللہ عزو جل کی طرف سے یہ طے ہو گیا تھا کہ اس کو اس پتھر نے جا کر لگنا ہے۔اگر تو مولانا فراہی رحمہ اللہ کا معنیٰ و مفہوم مراد لیں تو﴿مُسَوَّمَةً﴾کے معنیٰ سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ ایک پتھر ہوا کے زور سے زمین سے اُٹھ رہا ہے اور کسی کو جا کر لگ رہا ہے جبکہ دوسرا آسمان سے نازل ہو رہا ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں سے دوسری صورت میں پتھر کا صحیح نشانے پر لگنے کا مفہوم زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ آیتِ مبارکہ میں﴿جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا﴾کے الفاظ بھی یہ واضح کر رہے ہیں کہ عذاب کا یہ سارا معاملہ معجزانہ تھا۔معجزاتی طور پر اللہ عزو جل نے قومِ لوط کی بستوں کو اُلٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کا مزاج ان معجزات کا اقرار کرنے سے اباء کرتا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ میں علی گڑھ میں تعلیم وتعلّم اور مولانا شبلی رحمہ اللہ کے رستے سرسید کی بعض ذہنی پریشانیاں اور اُلجھنیں لاشعوری طور پر دَر آئی ہوں۔اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ مولانا نے اپنی تفسیر میں اکثر وبیشتر معجزات کی سطحی تاویلات کرتے ہوئے انہیں عقل ومنطق کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ آلِ فرعون کے عذاب میں وہ دریا کے پانی کے دونوں اطراف کھڑے ہونے کے معجزہ کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔یہی کام انہوں نے قومِ لوط پر نازل شدہ عذاب کے بارے میں بھی کیا ہے۔اب قرآن کے اس قدرواضح بیان کہ ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو نچلا بنادیا،کی بھی مولانا نے تاویل کر ڈالی کہ اس سے مراد یہ ہے ان کی بستیوں کی چھتیں زمین کے برابر ہو گئیں۔﴿إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾!اس مقام پر مولانا فراہی رحمہ اللہ سرسید سے بھی کچھ آگے نظر آتے ہیں کہ قرآن کے اس قدر صریح بیان کی تاویل کرنے کی جرات صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کا فلسفہ ایک نظم میں سمویا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ()إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ()ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ()وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ[1] کہ پس ہم نے لوط اور انکے سب گھر والوں کو بچا لیاسوائے ایک بڑھیا کے،جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی،بارش برسانا۔پس ڈرائے گئے لوگوں کی بارش بہت ہی بری تھی۔ ایک اور جگہ ارشادِ ہے: ﴿وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ[2] کہ البتہ تحقیق وہ اس بستی سے گزرتے ہیں جس پر بدترین بارش برسائی گئی۔ قرآنِ مجید نے قومِ لوط کے عذاب میں بار بار ’مطر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر نازل ہونے والا عذاب آسمان سے ایک بارش کی صورت میں تھا۔قرآن بعض مقامات پر اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ آسمان سے پتھروں کی بارش برسانا
Flag Counter