Maktaba Wahhabi

508 - 535
خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا[1] کہ پس ہر ایک کو ہم نے ان کے گناہ سے سبب سے پکڑا۔ان میں سے بعض پر ہم نے پتھربرسائے اور ان میں سے بعض کو ایک زور کی چیخ نے پکڑا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے پانی میں ڈبو دیا۔ اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ ہر قوم کو ایک ہی جیسے عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ مختلف اقوام پر نازل ہونے والے عذابوں کی کیفیت مختلف تھی۔قومِ لوط پر بھیجے جانے والے عذاب کو قرآن کریم نے کئی ایک مقامات پر بیان کیا ہے۔ذیل میں ہم قرآن کی چند آیات کی روشنی میں یہ جاننے کے کوشش کرتے ہیں کہ قومِ لوط پر بھیجے جانے والے عذاب کے بارے قرآن کی رائے کیا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ[2] کہ ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا،پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ عربی زبان میں ’مطر‘ کا لفظ آسمان سے نازل ہونے والے پانی کے لیے بولا جاتا ہے،جسے اردو میں ہم بارش کہتے ہیں۔ابن فارس رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "مطر:المیم والطّاء والرّاء أصل صحیح فيه معنیان:أحدهما:الغیث النّازل من السّماء،والآخر:جنس من العَدْو."[3] کہ مطر کا مادہ میم،طاء اور راء ہے۔یہ اصل صحیح ہے،کے دو بنیادی معنی ہیں۔ایک آسمان سے نازل ہونے والی بارش اور دوسرا بھاگنے کی ایک قسم۔ قرآن کے ہی الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ پانی کی بجائے پتھروں کی بارش تھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ[4] کہ ہم نے ان پر سنگ گل کے پتھروں کی بارش برسائی۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے پتھروں کی بارش کی تاویل ایسی تیز و تند ہوا اور آندھی سے کی ہے جو کنکروں کو اُڑا لے آئے۔پانی کی بجائے پتھروں کی بارش کو مطر کہنا مجاز توہو گا لیکن یہ مجازی معنیٰ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ یا علاقہ ہوناچاہیے اور وہ قرینہ یا علاقہ دونوں کا آسمان سے نازل ہونا ہے۔ابن منظور افریقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وقوله عزّ وجلّ:﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍجعل الحجارة کالمطر لنزولها من السّماء" [5]
Flag Counter