چکے ہیں۔اب ہم قوم لوط پر بھیجے جانے والے عذاب کے بارے مولانا کی تاویلات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ اس بارے کیا تحقیقات پیش فرماتے ہیں۔قرآن کے بیان کے مطابق قوم پر تین قسم کے عذاب آئے:
1۔ چیخ کا عذاب
2۔ بستیوں کو الٹنے کا عذاب
3۔ آسمان سے پتھر برسانے کا عذاب
ان میں سب سے نمایاں ان پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسانا تھا اور اسی کا قرآن نے کثرت سے تذکرہ کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ()فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ﴾[1]
کہ پس صبح ہوتے ہی انہیں ایک زور کی آواز نے آ پکڑا۔پس ہم نے ان کی بستی کے اوپر والے حصے کو نیچے والا کر دیا،اور ہم نے ان پر سنگ گل کے پتھروں کی بارش برسائی۔
قرآن کے اس قدرصریح اور واضح بیان کی تاویل،سابقہ قوموں سے متعلّق اپنے فلسفۂ عذاب کے مطابق کرنے کیلئے،مولانا کس طرح کرتے ہیں،اب ہم ذرا اس کو دیکھتے ہیں۔
مولانا فرماتے ہیں:
’’قومِ لوط کی ہلاکت غبار انگیز ہوا کے ذریعہ سے ہوئی۔قومِ لوط پر اللہ عزو جل نے غبار انگیز ہوا بھیجی جو سخت ہو کر بالآخر حاصب(کنکر پتھر برسانے والی تند ہوا)بن گئی۔اس سے اوّل تو ان کے اوپر کنکروں اور پتھروں کی بارش ہوئی۔پھر انہوں نے اس قدر شدت اختیار کر لی کہ اس کے زور سے ان کے مکانات بھی الٹ گئے۔چنانچہ انہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا﴾[2] کہ ان میں سے بعض قوموں پر ہم نے کنکر پتھر برسانے والی آندھی بھیجی۔نیز فرمایا ہے:﴿جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ﴾[3] کہ پس ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس کے اوپر تہہ بہ تہہ سنگ گل کے پتھروں کی بارش کی۔یعنی ایسی تند ہوائیں چلیں کہ ان کے مکانات اور چھتیں سب زمین کے برابر ہو گئیں اور اوپر سے کنکریوں اور ریت نے ان کو ڈھانک لیا۔‘‘[4]
مولانا کا یہ فلسفہ کہ ہر قوم پر آنے والا اصل عذاب ’ہوا‘ ہی کا عذاب تھا،قرآن کریم کی اس آیت کے بھی منافی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ
|