محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب کی گستاخی سے جورنج پہنچا تھا وہ رفع ہوجائے۔‘‘ یہ روایت کا جُز نہیں ہے۔روایت میں صرف یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ کےبعد اس سورت کا نزول ہوا۔
3۔ سورۂ عبس کی ابتدائی آیات کی شانِ نزول کے سلسلہ میں مروی روایات کی تضعیف کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:
"وهٰذا صريح في أن النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم لم يعلم من الأعمىٰ أنه جاء للتّزكّي أو التّذكّر. وإنما كان سبب الكراهيّة محض مجيئه الّذي كان مظنّة لما ذكرنا،وأما ما روي أنه سأل النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن يعلّمه القرآن فتولّىٰ عنه،فغير ثابت من طريق الرّواية،فكيف والقرآن صريح في خلافه." [1]
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل علم نہیں تھاکہ ابن اُم مکتوم اس وقت تعلیم و تزکیہ کا کوئی مقصد لے کر آئے ہیں۔آپ کو جو چیز ناگوار ہوئی وہ محض ان کااس وقت آنا تھا اور اس کا باعث وہی خیال تھا جو اُوپر بیان ہوا۔باقی رہی یہ بات کہ ابنِ اُم مکتوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیمِ قرآن کی درخواست کی تھی اور آپ نے اعراض فرمایاتو یہ بات از روئے روایت بھی ثابت نہیں ہے اور از روئے قرآن تو اس کا جو حال ہے وہ نمایاں ہی ہے۔
جن روایات سے سیدنا ابن اُمِ مکتوم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیمِ قرآن کی درخواست کرنے کے بارے میں علم ہوتا ہے ان کی وجۂ ضعف کی طرف مولانا نے کوئی اشارہ نہیں کیا۔بہرکیف اگر ابنِ اُم مکتوم نے تعلیمِ قرآ ن کی خواہش کا اظہار صراحتاً نہ بھی کیا ہو تو ان کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنا خود اس بات کی علامت تھاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں او رچونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا اس وقت آنا بعض دینی مصالح کے پیشِ نظر ناگوار گزرا(جس کا تذکرہ مولانانے بھی کیا ہے)اس لئے آپ کو تنبیہ کردی گئی۔
جس طرح مولانا فراہی رحمہ اللہ شانِ نزول کے سلسلہ کی روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اسی طرح ان روایات کو بھی قبول نہیں کرتے جو آیات کے زمانۂ نزول کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
4۔ مثلاً سورۂ لہب کے زمانۂ نزول سے متعلّق فرماتے ہیں:
"لم يبلغنا الخبر بزمان هذه السّورة عن الّذين شاهدوا نزولها. ولكن روى لنا من العلماء المستنبطين أنّها نزلت بمكّة،ولعلّ ذلك لما جعلوها جوابًا لقول أبي لهب." [2]
کہ جو لوگ اس سورت کے زمانۂ نزول میں موجود تھے ان سے اس کے زمانۂ نزول کے متعلّق کوئی روایت ہم تک نہیں پہنچی ہے۔البتہ بعض علماء نے قرائن و حالات اور سورت کے سیاق و سباق سے استنباط کرکے یہ رائے قائم کی ہے کہ یہ مکّہ میں اُتری ہے۔غالباً اس خیال کی بنیاد یہ ہے کہ یہ لوگ اس کو ابولہب کی سخت کلامی کا جواب سمجھتے ہیں۔
5۔ اسی طرح سورۂ کوثر کے زمانۂ نزول کے سلسلہ میں مولانا فرماتے ہیں:
"فلا نفهم من هذه السّورة إلا أنّها نزلت قبيل فتح مكّة أو عند فتحها الأوّل وهو موادعة قريش عند
|