الحديبية. ويؤيّد ذلك ما جاء من طريق الرّوايات. قال ابن جرير رحمه اللّٰه:حدثني يونس قال أخبرنا ابن وهب قال أخبرني أبو صخر قال حدثني أبو معاوية البجلي عن سعيد بن جبير أنه قال:كانت هذه الآية يعني قوله:﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾يوم الحديبية أتاه جبريل عليه السّلام،فقال انحر وارجع فقام رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فخطب خطبة الفطر أو النّحر ثم ركع ركعتين ثم انصرف إلى البدن فنحرها فذلك حين يقول:﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾. قال السّيوطي رحمه اللّٰه بعد ذكره هذا الحديث:قلت فيه غرابه شديدة. ولم يذكر وجه شدّة الغرابة اعتمادًا منه على ظهورها،لما توهّم رحمه اللّٰه أن هذا القول يخالف الأمر المشهور من وجوه مختلفة." [1]
کہ قیاس یہ ہے کہ یا تو یہ سورت فتحِ مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے،یا پہلی فتح یعنی صلح حدیبیہ کے دن نازل ہوئی۔روایات سے بھی ہمارے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے۔سعید بن جبیر سے روایت ہے:﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾والی آیت حدیبیہ کے دن نازل ہوئی۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل کرکے لکھا ہے کہ اس میں سخت غرابت ہے۔لیکن اس غرابت کی وجہ انہوں نے نہیں بیان کی۔چونکہ یہ روایت مختلف وجوہ سے ان کو ’مشہور‘ خیال کے مخالف نظر آئی اس وجہ سے انہوں نے وجۂ غرابت کی تشریح ضروری نہیں سمجھی۔
مولانا فراہی نے یہاں جس چیز کو ’مشہور خیال‘ قرار دیا ہے وہ سیدنا انس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کی نہر کوثر معراج میں دکھائی گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((بَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ في الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ،قُلْتُ:مَا هذَا يَا جِبْرِيلُ!قَالَ:هذَا الْكَوْثَرُ الّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ،فَإِذَا طِينُه أَوْ طِيبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ))شك هدبة. [2]
اسی وجہ سے جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ سورہ مکی ہے۔خاص طور سےسورہ کی آخری آیت واضح طور پر اس کے مکی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔اسی وجہ سے مولانا اصلاحی رحمہ اللہ(1997ء)نے بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ(1930ء)سے اختلاف کیا ہے،فرماتے ہیں:
’’مکی زندگی کے آخری دَور میں جب مسلمانوں پرمکہ میں عرصۂ حیات تنگ ہورہا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فتح و غلبہ کی بشارت مختلف سورتوں میں دی گئی ہے۔یہ بشارت بھی اسی نوعیت کی ہے۔اگرچہ بعض لوگوں نے اس بشارت ہی کے سبب سے اس سورہ کو واقعہ حدیبیہ کے دور سے متعلق مانا ہے۔استاد امام مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔لیکن میرےنزدیک اس تکلّف کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ [3]
|