(جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے)ناپسند رہا ہو۔بالخصوص شہد کی بعض قسمیں اپنی بو اور مزے کی تلخی کی وجہ سے ایسی ہوتی بھی ہیں کہ ہر شخص ان کو پسند نہیں کرسکتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت مرغوب تھا،لیکن جب آپ کومعلوم ہوا کہ آپ کی ازواج میں سے بعض کو ناپسند ہے تو آپ نے ترک فرما دیا۔
حالانکہ اس روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو بداہتاً غلط ہو۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے جو کچھ مظاہرہ ہوا وہ دوسری بیوی کے شوہر سے زیادہ قریب ہوتے محسوس کرکے محض رشک کا ایک اظہار تھا،اور یہ ایک فطری بات تھی۔
2۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب آیتِ کریمہ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ صفا پرچڑھ کر بلند آواز سے قریش کے مختلف خاندانوں کو پکارا کہ((یَا بَنِي فِهر!يَا بَنِي عَدِي!))یہ آواز سن کر سب جمع ہوگئے،حتیٰ کہ جو خود نہیں آ سکتا تھا اس نے اپنا حالات معلوم کرنے کیلئے اپنا نمائندہ ارسال کیا۔ابو لہب اور قریش بھی آگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:((أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ،أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ))کہ اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے تو تم میری بات سچ مانو گے؟ لوگوں نے کہا:جی ہاں!ہمیں کبھی آپ سے جھوٹ سننے کاتجربہ نہیں ہوا ہے۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:((فَإِنِّي نَذِيرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ))کہ تو میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ آگے سخت عذاب آرہا ہے۔اس پرابولہب نے کہا کہ تمہارا بُرا ہو،کیا اسی لئے ہمیں اکٹھا کیا تھا؟ اس پر نازل ہوا:﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ()مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ﴾[1]
مولانا فراہیْ رحمہ اللہ اس روایت کو تو صحیح مانتے ہیں،اسی لئے انہوں نے اسے نقل بھی کیا ہے،لیکن اسے سورۂ لہب کا شانِ نزول نہیں مانتے،فرماتے ہیں:
"فبعد ما اتّضح لنا التأويل الصّحيح لا نرى سبيلًا إلى اختيار قول من قال:إن هذه السّورة نزلت شفاءً لغيظ النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم تشتم أبا لهب وامرأته لما أنه شتم النبي حيث قال له:تبّا لك ألهذا دعوتنا. لا شكّ أن أبا لهب حينئذ خاطب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بالسّفاهة. "[2]
کہ عام خیال ہے کہ ابولہب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا تھا:تبّا لك ألهذا دعوتنا. اس کے جواب میں خداوند تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت میں یہ سورت اُتاری،کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب کی گستاخی سے جو رنج پہنچا تھا وہ رفع ہوجائے۔لیکن صحیح تاویل روشن ہو جانے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس رائے کو قبول کریں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس روایت کے تعلّق سے جو یہ عام خیال نقل فرمایا ہے کہ ’’یہ سورہ مذمت میں اُتری کہ
|