اس سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا فراہی فہمِ قرآن میں احادیث سے استفادہ کے قائل نہیں ہیں۔وہ قرآن کو براہِ راست نظم اور سیاق سے سمجھتے ہیں،پھر جو مفہوم ان کی سمجھ میں آتا ہے،اس کے مطابق جو احادیث ملتی ہیں انہیں قبول کرلیتے اور جو اس کے مطابق نہیں ہوتیں انہیں ردّ کردیتے ہیں۔
یہ رائے جمہور علماء کی رائے کے برعکس ہے،کیونکہ اس کے مطابق فہمِ قرآن میں صرف قرآن پر اکتفا کرنا صحیح نہیں،بلکہ سنت اور اقوالِ سلف سے بھی استفادہ ضروری ہے۔مثال کے طور پر چند تصریحات حسبِ ذیل ہیں۔
امام شاطبی رحمہ اللہ(790ھ)فرماتے ہیں:
"لا ینبغي في الاستنباط من القرآن الاقتصار عليه دون النّظر في شرحه وبيانه وهو السّنة،لأنه إذا كان كلّيا وفيه أور جليّة کما في شأن الصّلاة والزّكاة والحج والصّوم ونحوها فلا محیص عن النّظر في بيانه،وبعد ذلك ینظر في تفسیر السّلف الصالح له إن أعوزته السنّة،فإنهم أعرف به من غيرهم وإلا فمطلق الفهم العربي لمن حصله يكفي فیما أعوز من ذلك،واللّٰه أعلم. "[1]
کہ قرآن سے استنباط میں صرف اسی پر اکتفا کرنااو راس کی شرح و بیان یعنی سنت کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔اس لئے کہ اسے کل کی حیثیت حاصل ہے اور اس میں عظیم اُمور کا بیان ہے،مثلاً نماز،زکوٰۃ،حج،روزہ وغیرہ۔اس لئے اس کے بیان و شرح کا مطالعہ کرنے سے مفر نہیں۔پھر اگر سنت سے اس کی تشریح نہ ہوسکے تو سلف صالح کی تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے گا،اسلئے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں سنّت کو زیادہ جاننے والے تھے۔اگر سلف صالح کی تفسیر میں بھی نہ ملے تو مطلق عربی زبان کا فہم کافی ہے۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾،﴿وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾قد تبیّن ببیان اللّٰه جلّ ذكره:أنّ مما أنزل اللّٰه من القرآن على نبيّه صلی اللّٰه علیہ وسلم ما لا یُوصل إلى علم تأويله إلا ببیان الرّسول صلی اللّٰه علیہ وسلم وذلك تأویل جمیع ما فيه:من وجوه أمره۔واجبه وندبه وإرشاده۔وصنوف نهيه ووظائف حقوقه وحدوده ومبالغ فرائضه ومقادير اللّازم بعضَ خَلْقه لبعض،وما أشبه ذلك من أحكام آية التي لم يُدرَك علمُها إلا ببيان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لأمّته،وهذا وجهٌ لا يجوز لأحد القول فيه،إلا بييان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم له تأويلَه بنصّ منه عليه،أو بدلالة قد نصبَها دالّة أمتَه على تأويله." [2]
کہ ارشاد باری تعالیٰ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾اور﴿وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾سے معلوم ہواکہ
|