Maktaba Wahhabi

474 - 535
اصل نہیں ہے۔مقصود یہ ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان ایک حجت قاطع اور ایک مرکز جامع کی حیثیت سے کام دے سکے۔ مزید فرماتے ہیں: "فالذي يهمّك(أوّلًا)هو أن تعلم أن القرآن۔في كشف معناه۔لا يحتاج إلى هذه الفروع،فإنه هو المهيمن على الكتب السّابقة،وهو الحق الواضح الذي يرد الخصام فيقضي بين المتخاصمين. ولكن إن أردت تصديقه فالنّظر في الفروع يفيدُك ويزيدُك إيمانًا واطمئنانًا." [1] کہ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن اپنی تفسیر کے لئے ان فروع(یعنی احادیث،قوموں کے ثابت شدہ اور متفق علیہ واقعات اور گزشتہ انبیاء کے محفوظ صحیفے)کا محتاج نہیں ہے۔وہ تمام کتابوں کیلئے خود مرکز و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے او رجہاں کہیں اختلاف واقع ہو تو اسی کی روشنی جھگڑے کو چکانے والی بنے گی۔لیکن اگر تم کو قرآنِ مجید کی تصدیق و تائید کی ضرورت ہو تو ان فروع کی مراجعت سے تمہارے ایمان و اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ مزید فرماتے ہیں: "ولا شكّ أن أسلم الطّرق أن نضع زمام الاستنباط في يد القرآن،فنتوجّه حيث يقودنا نصه واقتضاؤه ونظمه وسياقه." [2] کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ بے خطر راہ یہ ہے کہ استنباط کی باگ قرآن مجید کے ہاتھ میں دے دی جائے،اس کانظم و سیاق جس طرح اشارہ کرے اسی طرف چلنا چاہئے۔ پچھلی فصل میں تفسیر قرآن بذریعہ حدیث کے بارے میں مولانا کے اقوال اور مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں احادیث کی اُصولی حیثیت کے سلسلہ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کی درجِ ذیل آراء معلوم ہوتی ہیں: 1۔ تفسیرِ قرآن میں مرجع کی حیثیت قرآن ہی کو حاصل ہے،البتہ احادیث کو تائید و تصدیق کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے۔ 2۔ احادیث میں سے وہی چیزیں لینی چاہئیں جو نظمِ قرآن کی تائید کریں۔جو احادیث نظمِ قرآن کو درہم برہم کردیں ان کی تاویل کرنی چاہئے۔ 3۔ صرف وہ احادیث قبول کرنی چاہئیں جو قران کی تصدیق و تائید کریں۔ 4۔ ایسی احادیث قبول نہیں کرنی چاہئیں جونصوصِ قرآن کی تکذیب کرتی ہوں۔ 5۔ قرآن اور احادیث کا درجہ برابر نہیں،لہٰذا ان سے ثابت شدہ احکام میں بھی فرق کرنا چاہئے،کیونکہ قرآن قطعی ہے اور احادیث میں وہم وظن کی بہت گنجائش ہے۔ 6۔ سب سے پسندیدہ تفسیر وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم او رصحابہ کرام سےمنقول ہو۔
Flag Counter