اللہ عزو جل نے اپنی نبی پر جو قرآن نازل کیا ہے،اس کے بعض حصوں کی تاویل صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہی سے معلوم ہوسکتی ہے۔اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن میں وجوب یا استحباب کے درجے میں کوئی حکم دیا گیا ہے،یامنع کیاگیا ہے،یا حقوق وحدود بیان کئے گئے ہیں،یا فرائض یا بندوں کے باہمی معاملات کا تذکرہ ہے وغیرہ۔ان آیات کے احکام کا علم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے ہی ہوسکتا ہے۔اس سلسلہ میں کسی کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنی جانب سے ان کی تاویل کرے،بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ تشریح اختیار کرے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے بیان کیا ہے یا اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کی یہ رائے اس لئے بھی قابل قبول نہیں معلوم ہوتی،کیونکہ قرآن کے نظم اور سیاق کو پیشِ نظر رکھ کرمتعین کیا جانے والا مفہوم قطعی نہیں ہوسکتا۔اگر ایسا ہوتا تو مولانافراہی رحمہ اللہ اور مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے استنباطات میں کوئی اختلاف نہ ہوتا،اس لئے کہ دونوں نظم اور سیاق کو پیشِ نظر رکھ کر ہی آیات کامفہوم متعین کرتے ہیں۔اس کے باوجود ان آیات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی تفسیر میں دونوں کا اختلاف ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظم وسیاق کے ذریعے آیات کی تفسیر میں ذاتی رجحانات شامل ہوجاتے ہیں۔پھر اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ مفسر نے نظم اور سیاق کو پیشِ نظر رکھ کر آیت کا جو مفہوم متعین کیا ہے،وہی صحیح ہے اور جو روایات اس کے برعکس ہیں وہ ضعیف،ناقابل قبول اور محض واہمہ ہیں۔
کیا حدیث کے ذریعہ قرآن کی تفسیر غلط اصول ہے؟
بعض مقامات پر مولانا فراہی رحمہ اللہ نے حدیث کے ذریعہ تفسیر قرآن کو غلط اُصول قرار دیا ہے۔
چنانچہ تفسیر قرآن کا پہلا غلط اُصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هل يأول الحديث إلى القرآن أم يعكس الأمر؟"[1]
کہ کیا قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کی جائے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہئے۔
جبکہ دوسرا غلط اصول تفسیر القرآن بالحدیث قرار دیا ہے۔[2]
یہ طرزِ فکر ائمہ تفسیر کی تصریحات سے قطعی متصادم ہے،جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔مزید برآں اس پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حدیث سے تفسیر کرنا غلط اُصول ہے تو پھر صحیح اصول کیا ہے؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا جواب یہ ہے کہ نظمِ قرآن،ادبِ جاہلی اور نظائرِ قرآنی وغیرہ سے تفسیر[3]لیکن قابلِ استفسار بات یہ ہے کہ یہ تمام ذرائع تو خود اجتہادی ہیں،کیونکہ ان میں فہم وفکر کا دخل ہے،فلہٰذا ان پر کلّی اعتماد کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ اس میں تو اختلاف کی پوری پوری گنجائش موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ خود مولانا فراہی رحمہ اللہ کے تلمیذِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر کے بہت سے مقامات پر ان سے اختلاف کیا ہے،حالانکہ وہ خود بھی نظمِ قرآن کے اسی طرح شدّ ومد سے قائل ہیں۔
اگر حدیث کو نظر انداز کرکے محض قرآن ہی کے بل بوتے پر تفسیر کرنے کو درست اُصول مان لیا جائے تو پھر تمام گمراہ فرقوں کا
|