یُدْخِلَهُمُ الْجَنَّةَ إِن لَّمْ يُشْرِكُوا بِهِ))‘‘[1]
2۔ ایمان وعمل کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’علماء میں اعمال کی حیثیت کے سلسلہ میں اختلاف ہے:بعض کہتے ہیں کہ بد عملی کے باوجود ایمان باقی رہ سکتا ہے۔بعض کا خیال ہے کہ بد عملی اور ایمان دونوں متضاد چیزیں ہیں،لہٰذا جمع نہیں ہو سکتے۔بعض لوگ اس میں فرق کر تے ہیں،چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایمان اور برے اعمال میں تضاد ہے،لیکن اس کے درجات ہیں۔کچھ برے اعمال ایسے ہیں جن سے ایمان میں کمی آجاتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جن سے ایمان ختم ہو جاتا ہے۔عقل ونقل سے بھی یہی ثابت ہے۔ارشادِ ربانی ہے:﴿بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾،﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾،﴿وَمَنْ يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾،سود کھانے والے کے بارے میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔صحیح بخاری میں ہے:((إِنَّ مِنَ الْأَعْمَالِ سَبْعَ مُوبِقَات))یہ قرآن سے استنباط ہے۔‘‘[2]
3۔ آیات کریمہ﴿الرَّحْمَنُ()عَلَّمَ الْقُرْآنَ()خَلَقَ الْإِنْسَانَ()عَلَّمَهُ الْبَيَانَ﴾[3] ذکر کرکے فرماتے ہیں:
فبدأ بنفسه فإنه هو البادئ بالرّحمة والتّعليم،وعلّمك أن كمال رحمته هو تعليمه القرآن،وإنه خلقك وعلّمك البيان لتعدّ لذلك التّعليم. ومن ههنا تبيّن حكمة ما رُوي في الخبر:((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَه))رواه ابن ماجه عن سعد." [4]
کہ ان آيات کا آغاز اللہ عزو جل نے اپنی ذات سے کیا،کیوں کہ وہی رحمت اور تعلیم کا مبدا ہے اور تمہیں بتایا کہ اس کی بے پایاں رحمت یہ ہے کہ اس نے قرآن کی تعلیم دی،تمہیں پیدا کیا اور بولنا سیکھایا کہ تم اپنے آپ کو اس تعلیم کیلئے تیار کر سکو۔اس توضیح سے حدیث میں وارِد حکمت کی وضاحت ہو جاتی ہے:((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَه))کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ آیات کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے بسا اوقات احادیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں،یا ان کا اجمالی حوالہ دیتے ہیں۔مثلاً کہیں آیت کی تفسیر میں وہ صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس بات کی تائید صحیح حدیث سے ہوتی ہے،یا اس حدیث کے ایک دو الفاظ ذکر کر دیتے ہیں،جس سے قاری کے ذہن میں پوری حدیث آجائے۔اس کی کچھ مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
|