Maktaba Wahhabi

453 - 535
تمہارے لئے بہتر ہے،اس لئے کہ تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس سے اختلاف کیا ہے۔اس سلسلہ میں انہوں نے منجملہ دوسرے دلائل کے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ عربی زبان میں 'صغو' کا لفظ پھرنے اور ہٹنے کے معنی میں نہیں،بلکہ مائل ہونے اور جھکنے کے معنی میں آتا ہے،فرماتے ہیں کہ میل(جھکنا،ہٹنا)ایک کلّی مفہوم ہے۔اس کے تحت عربی میں بہت سے الفاظ ہیں۔مثلاً الزّيغ،الجور،الارعواء،الحيادة،التّنحي اور الانحراف وغیرہ،لیکن یہ سب الميل عن الشّيء یعنی کسی چیز سے ہٹنے او رپھرنے کے لئے آتے ہیں۔پھر اس کے تحت الفيء،التّوبة،الالتفات اور الصّغو وغیرہ الفاظ ہیں،جو سب کے سب الميل إلى الشّيء یعنی کسی چیز کی طرف مائل ہونے اور جھکنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔جو لوگ اس قسم کے باریک فرقوں سے نا واقف ہیں وہ زبان کے سمجھنے میں خود بھی غلطیاں کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی غلطیوں میں ڈالتے ہیں۔اس نکتہ کے واضح ہوجانے کے بعد عربی زبان کے ایک عالم سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی کہ﴿صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کے معنی ہیں:أنابت قلوبکما ومالت إلى اللّٰه ورسوله کہ تم دونوں کے دل اللہ اور اس کے رسول کی طرف جھک چکے ہیں۔کیونکہ صغو کا لفظ کسی شے کی طرف جھکنے کیلئے آتا ہے،کسی شے سے مڑنے اور ہٹنے کیلئے نہیں آتا۔ اس کے بعد مولانا نے عربی زبان میں اس کے مختلف استعمالات پیش کئے ہیں اور اشعار سے استشہاد کیا ہے۔اسی ذیل میں دو حدیثیں بھی پیش کی ہیں،فرماتے ہیں: ومنه الحديث:((يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَىٰ لَيْتًا))أي أمال صفحة عنقه إليه ... وفي حديث الهرة:((كَانَ يُصْغِي لَهَا الْإِنَاءَ))أي يميله ليسهل عليها الشّرب. [1] کہ اسی سے حدیث ہے:((يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَىٰ لَيْتًا))یعنی اپنی گردن اس کی طرف موڑے گا۔اور ہرّہ والی حدیث میں ہے:((كَانَ يُصْغِي لَهَا الْإِنَاءَ))یعنی برتن کو جھکا دیتے تاکہ وہ آسانی سے پی سکے۔ تفسیر قرآن میں احادیث سے استدلال مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک تفسیر میں اصل الاصول قرآن کریم ہے،احادیث کو تائید کے طور پر لایا جا سکتا ہے،جیسے پیچھے گزرا،لہٰذا مولاناآیات کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے احادیث سے بھی مدد لی ہے۔اس سلسلہ میں درج ذیل امثلہ ملاحظہ ہوں: 1۔ آیت کریمہ:﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ[2] کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اشاعرہ نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ اگر اللہ عزو جل کسی کو گناہ نہ کرنے کے باوجود عذاب دے تو بھی یہ ظلم نہیں ہوگا اور کسی کو اللہ عزو جل سے یہ پوچھنے کا حق نہ ہوگا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ لیکن آیت سے مراد یہ نہیں ہے،ارشاد باری ہے:﴿لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا﴾صحیح بخاری بخاری میں ہے:((إِنَّ لِلْعِبَادِ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ
Flag Counter