معنوی ربط کی طرف اشارہ کرنے کے بعد مذکورہ سورت میں اس کے معنی کی تعیین یوں کی ہے:
"وعلى هذه الأصل قال قتادة في تفسير هذه الآية:الأبتر:الحقير الدقيق الذليل. فتبين أن معنى هذه الكلمة تدرج من المقطوع إلى الصغير القصير وإلى المخذول الحقير." [1]
کہ اسی بنا پر قتادہ نے ’ابتر‘ کے معنی حقیر و ذلیل کے بتائے ہیں۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ مقطوع کے معنی سےچل کر صغیر و قصیر کے معنی میں آیا،پھر یہ بے یارو مددگار اور حقیر و ذلیل کےمعنی میں استعمال ہونے لگا۔
3۔ الاتقاء:اس لفظ کے مختلف صیغے قرآن كريم میں آئے ہیں۔مثال کے طور پر ایک آیت ہے:﴿أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾[2] اس کی تشریح میں مولانا نے لکھا ہے کہ وَقَیٰ،يَقِي سے افتعال کا صیغہ ہے،اس کا مجرد دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے۔جیسے:﴿فَوَقَاهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ﴾[3] یعنی انہیں اس سے محفوظ کر لیا۔البتہ افتعال کا صیغہ متعدی بہ یک مفعول ہوتا ہے۔پھر اس کے عربی زبان میں مختلف استعمالات اور نابغہ ذبیانی کے شعر سے استشہاد کرتے ہوئے ایک حدیث پیش کی ہے:
"وفي الحديث:((اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ))أي التمِسوا وقاية من النار،ولو بشقّ تمرةٍ تُعطوها الفقراء." [4]
کہ حدیث میں ہے:((اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ))آگ سے بچاؤ حاصل کرو،خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے،جو تم فقیروں کو دو۔
4۔ كفر:یہ لفظ قرآن كريم میں بے شمار جگہوں پر آیا ہے اس کی تشریح میں مولانا نے لکھا ہے کہ یہ بابِ نصر سے ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں۔استشہاد میں لبید بن ربیعہ اور ثعلبہ بن صُعیر کے اشعار پیش کیے ہیں۔پھر فرماتے ہیں:
"ومنه:كفره:جحد بنعمته،فسترها،ضد شكره،كما قال تعالى:﴿إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا﴾وقال تعالى:﴿أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ﴾وفي دعاء القنوت:((نَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ))." [5]
کہ کفر کا مطلب ہے نعمت کا انکار کرکے اسے چھپانا۔اس کی ضد شکر آتی ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے:﴿إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا﴾کہ یا شکر گزار یا پھر نا شکرا۔دوسری جگہ ہے:﴿أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ﴾کہ قومِ ثمود نے اپنے رب کا انکار
|