الكلام كان بنو إسرائيل فِرَقا وأقوامًا،وكان قوم هارون عليه السلام مختصًا بخدمة البيت. فإن قلت لم لا تأخذه بمعنى أولاد موسى عليه السلام وأولاد هارون عليه السلام؟ قلت:آل موسى وآل هارون يحتوي موسى وهارون عليهما السلام أيضا،كما أنه احتوى جميع بني إسرائيل. [1]
کہ قرآن میں فرعون کی اولاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے،بظاہر وہ لاولد تھا۔﴿وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ﴾،﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ... وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ﴾ان آیتوں میں ’آل‘ قوم کے معنی میں ہے۔اس لئے کہ فرعون کی پوری قوم بنی اسرائیل پر ظلم ڈھاتی تھی او راللہ تعالی کا عذاب بھی فرعون کی پوری قوم پر آیا۔اسی طرح آیت:﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ﴾میں مراد موسیٰ او رہارون علیہ السلام کی قوم ہے،اس لئے کہ جس وقت صموئیل نبی نے یہ بات کہی تھی اس وقت بنی اسرائیل فرقوں اور قبیلوں میں بٹ چکے تھے اور خدمت کنیسہ کی ذمہ داری ہارون کی قوم پر تھی۔اگر یہ کہا جائے کہ آلِ موسیٰ و آلِ ہارون کو موسیٰ او رہارون کی اولاد کے معنی میں کیوں نہ لیا جائے تو اس کاجواب یہ دیا جائے گا کہ آلِ ہارون و موسیٰ میں ان کی قوم کے ساتھ وہ اور ان کی اولاد بھی شامل ہے۔
اس کے بعد حدیث سے دلیل لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولذلك جاء في الحديث:
((أُعْطِيَ [ مِزْمَارًا ] مِن مَزَامِیرِ آلِ دَاوُودَ))فهذا يحتوي داود والمغنّين معه. [2]
کہ اسی لئے حدیث میں ہے کہ اسے(ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ(44ھ)کو)داؤد کے سروں میں سے ایک سُر دیا گیا ہے۔یہ داؤد اور ان کے ساتھ مغنین کو بھی شامل ہے۔
2۔ الأبتر:یہ لفظ سورۂ کوثر کی آخری آیت﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ﴾[3]میں آیا ہے۔مولانا نے لکھا ہے کہ
﴿الْأَبْتَرُ﴾بتر سے صفت کا صیغہ ہے،بتر کے معنی کاٹنےکے ہیں۔یہ لفظ عربی زبان میں مختلف طریقوں سے استعمال ہوا ہے۔اس کے بعد اس لفظ کے مختلف استعمالات بتاتے ہوئے دو حدیثیں بھی نقل کی ہیں:قربانی والی حدیث میں ہے:((أَنّه نَهَىٰ عَنِ الْمَبْتُورَةِ))اس سے مراد دُم بريده جانور ہے۔ایک اور حدیث میں ہے:((کُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ بِبِسْمِ اللّٰهِ فَھُوَ أَبْتَرُ))أبتر کے مراد وہ مشکیزہ یا ڈول ہے جس کا کڑا نہ ہو۔اس طرح مختلف استعمالات بتانے اور ان کے درمیان
|