Maktaba Wahhabi

404 - 535
لغت نے بھی کبھی استعمال نہیں کیا۔گویا کہ نہ تو اس معنی پر قرآن شاہد ہے اور نہ ہی اہل لغت سوائے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے،اور اس معنی کے ذریعے وہ آیتِ قرآنیہ کی تفسیر کر رہے ہیں۔ تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآن کو قطعی الدلالۃ ثابت کرنے کے لیے ایک اصول بنایا ہے اور پھر اس اصول کے تحت یہ مثال بیان کی ہے اور اس مثال میں بھی وہ اپنے اس اصول کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔جب اپنے ہی اصول کی انہوں نے مخالفت کر دی تو اصول کیسے ثابت ہوا؟ کیا اصول اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ ہم ان کی مخالفت کریں ؟ اگر اصولوں کی پابندی ہی نہ کی جائے تو وہ اصول ہی کیا کہلائیں گے ؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے ہی اصول اور جمیع اہل لغت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہاں پر﴿أُمَّةً قَانِتًا﴾کا جو معنی کیا ہے وہ عربی گرائمر کے بھی خلاف ہے۔اگر یہ معنی لیں تو اس صورت میں﴿أُمَّةً قَانِتًا﴾موصوف صفت کی ترکیب بنتی ہے اور یہ معنی تب درست ہوتا جبکہ﴿قَانِتًا﴾بھی مونث کے صیغہ میں قَانِتَةً ہوتا۔جب﴿أُمَّةً﴾کا لفظ مونّث ہے اور﴿قَانِتًا﴾مذکّر ہے تو مولانا کا پہلا اُصول نظمِ قرآن یہ بتلا رہا ہے کہ﴿أُمَّةً﴾کان کی پہلی خبر ہے اور﴿قَانِتًا﴾دوسری خبر ہے لہٰذا اس کا وہ ترجمہ درست نہیں ہے جو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے کیا ہے یعنی کامل فرمانبردار،یہ موصوف صفت کا ترجمہ ہے نہ کہ دو مستقل خبروں کا۔د ومستقل خبروں کی صورت میں اس آیت کا ترجمہ یہ بنے گا کہ سیدنا ابراہیم ایک جماعت تھے اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ جمہور مفسرین نے﴿أُمَّةً﴾کا جو معنی لیا ہے اس کے شواہد قرآن کریم میں تو بکثرت موجود ہیں ہی۔اس کے ساتھ ساتھ حدیث اور عربی زبان و ادب میں بھی یہ لفظ اس معنی میں کثرت سے مستعمل ہے۔ایک روایت میں زید بن عمرو بن نفیل کے بارے کہا گیا: ((یُبْعَثُ أُمَّةً وَحْدَه))[1] کہ وہ اکیلے جماعت کی مانند قیامت کے دن اٹھائیں جائیں گے۔ نظمِ قرآن یا لغتِ عربی سے تفسیر قرآن غلط طریقِ کار نہیں لیکن تفسیر بالرّائے ہے۔اور تفسیر بالرائےاگر حدیثِ مبارکہ یا علمائے اہل سنّت کی اجماعی تفسیر کے خلاف ہو تو مردود ہے اور اگر وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام رحمہم اللہ کی اجتہادی تفسیر کے خلاف ہو گی تو مرجوح ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص عربی عرف سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے اور وہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی لغوی تفسیر کے خلاف ہو تو مردود ہو گی کیونکہ صحابہ کرام قرآن کی لغت کو دورِ جاہلیت کے شعراء سے بھی زیادہ جاننے والے تھے کیونکہ قرآنِ کریم ان کے محاورہ میں اُترا تھا۔علاوہ ازیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کی باقاعدہ اسناد بھی موجود ہیں جن کی روشنی میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ قول صحابی ہے بھی یا نہیں۔جبکہ دورِ جاہلیت کی طرف منسوب شاعری کو کسی متعین شاعر کی نسبت سے ثابت کرنا تو بہت دور کی بات ہے،اس کے بارے میں صرف یہی ثابت کرنا ہی ناممکن ہے کہ واقعتاً یہ دورِ جاہلیت ہی کے زمانے کی شاعری ہے اور بعد کے کسی زمانے میں نہیں گھڑی گئی۔مصر کے معروف ادیب ڈاکٹر طٰہ حسین نے اپنے کتاب ’فی الأدب الجاہلی ‘ میں دورِ جاہلیت کی طرف منسوب شاعری کے مابعد کے زمانوں میں وضع کیے جانے کا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔
Flag Counter