Maktaba Wahhabi

403 - 535
الأوّل والثّاني اتضع معناه. أمّا الأصل الأول،فإن كلمة﴿قَانِتًابعدها تفسيرها،فإن الأمّة هو الطّائع بتمامه وهو أوفق بالقانت. وأما الأصل الثاني،فلوجود نظائره لما جاء في صفاته من الطّاعة الكاملة. ولكن بقي علينا بيان أن الأمّة هو الطّائع. فإن الجمهور من أهل اللغة قد خفي عليهم هذا المعنى ولكنّهم قد قاربوه." [1] کہ مثال کے طور پر آیت:﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلّٰهِ﴾میں لفظ﴿أُمَّةً﴾کو لے لو۔اس آیت میں اس لفظ کے وہی معنی مراد نہیں ہو سکتے جن کیلئے لفظ دوسرے مواقع پر استعمال ہوا ہے کیونکہ یہ معانی سیاقِ کلام کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔یہاں اس لفظ میں جو معنیٰ مراد ہیں،ان کی نظیر بھی قرآن میں نہیں ملتی۔دوسرے مقامات پر﴿أُمَّةً﴾کا لفظ تین معانی کے لیے آیا ہے:مدّت کے لیے،لوگوں کی جماعت کے لیے،راستہ کے لیے۔البتہ جب ہم پہلے اور دوسرے اُصول کو مدّنظر رکھتے ہیں تو اس لفظ کے معنی واضح ہو جاتے ہیں۔پہلے اصول کے تحت﴿أُمَّةً﴾کے بعد﴿قَانِتًا﴾کا جو لفظ آ یا ہے،وہ اس کی تفسیر کر رہا ہے۔﴿أُمَّةً﴾کے معنی کامل فرمانبردار کے ہیں اور یہ لفظ﴿قَانِتًا﴾سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔دوسرے اُصول کی روشنی میں ہمیں حضرت ابراہیم کی اس صفت کے نظائر ملتے ہیں کہ وہ خدا کی کامل اطاعت کرنے والے تھے۔امت کے معنی فرمانبردار کے آتے ہیں لیکن جمہور اہلِ لغت سے لفظ کے یہ معنی مخفی رہ گئے اگرچہ وہ اس کے قریب پہنچ گئے تھے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ خود ہی اُصول بناتے ہیں اور جہاں انہیں اپنے اصولوں کی روشنی میں اپنی مرضی کے معنی حاصل ہوتے نہیں نظر آتے تو اپنے ہی اصولوں کو ویٹو کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ معانی کو ترجیح دینے کے لیے تاویل کر دیتے ہیں۔مولانا کی عبارت کو غور سے پڑھیں تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دوسرے اُصول کو اس استدلال میں توڑا ہے۔آیتِ مبارکہ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلّٰهِ[2] میں﴿أُمَّةً﴾کے لفظ کے بارے انہوں نے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں مدت،جماعت اور رستے کے معنی میں آیا ہے۔اب اس مقام پر اس لفظ کے معانی میں اہل تاویل کا اختلاف ہو گیا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے دوسرے اصول کے پیش نظر اس مقام پر لفظ﴿أُمَّةً﴾کا معنی کرتے ہوئے اس لفظ کے ان تین معانی میں سے ایک معنی کو ترجیح دینی چاہیے کہ جن معانی میں قرآن نے اس لفظ کو دوسرے مقامات پر استعمال کیا ہے۔پس جمہور مفسرین اس مقام پر﴿أُمَّةً﴾کا معنی جماعت یا اس کا امام کرتے ہیں[3] اور اس معنی میں یہ لفظ قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے لہٰذا قرآنی عرف کے مطابق اس لفظ کا یہاں معنی جماعت ہونا چاہیے اور سیدنا ابراہیم کو جماعت قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ ان کا کام اور عمل ایک جماعت کے برابر تھا۔ اس کے برعکس مولانا فراہی رحمہ اللہ یہاں پر اپنے ہی بنائے ہوئے اُصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس لفظ کا معنی ’کامل فرمانبردار‘ لیتے ہیں اور اس معنیٰ میں اس لفظ کو قرآن نے کہیں بھی استعمال نہیں ہے۔قرآن تو کجا،مولانا کے مطابق ’امت‘ کو اس معنیٰ میں اہل
Flag Counter