مولانا فراہی رحمہ اللہ کے موقف ’قرآن فی نفسہ قطعی الدلالۃ ہے ‘ کا بدیہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی تفسیر میں اختلاف بہت کم ہونا چاہیے اور اگر ہو بھی تو تضاد کا اختلاف نہ ہو۔جب قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو اس کی تفسیر میں تضاد کا اختلاف کیوں ؟ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو ں یا تابعین عظام رحمہم الله،جلیل القدر مفسرین ہوں یا ائمہ مجتہدین،یہ سب حضرات قرآن کی تفسیر میں اختلاف کرتے ہیں،اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ متاخّرین کی نسبت متقدّمین میں تفسیر کا یہ اختلاف بہت کم ہوا ہے اور جو کچھ ہوا بھی ہے اس میں اکثر و بیشتر تنوّع کا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متقدّمین اور سلف صالحین میں بھی تفسیر قرآن میں اختلافِ تضاد بھی واقع ہوا ہے۔اسکی ایک عام مثال آیتِ کریمہ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں﴿قُرُوءٍ﴾سے مراد طہر ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حیض۔اور ہر دوفقہ کے حاملین کی طرف سے فقہ و اصول فقہ کی کتب اپنے موقف کے اثبات کے لیے دلائل کے انبار سے بھری پڑی ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر بعد میں آنے والا مفسر،اپنے پہلے مفسر سے اختلاف کرتا ہے،اگر قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین،امام ابو حنیفہ وامام شافعی،امام رازی و علامہ زمخشری،امام طبری و امام قرطبی اور مولانافراہی واصلاحی رحمہم اللہ کاقرآن کی تفسیر میں آپس میں اختلاف کیوں ہوا ؟ صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم،تابعین عظام رحمہم اللہ،ائمہ اربعہ،طبری و قرطبی،زمخشری و رازی رحمہم اللہ اگر قرآنی یا عربی لغت سے واقف نہیں تھے یا ان پر نظم قرآنی کے ذریعے تفسیر کے نادر اصول ابھی منکشف نہیں ہوئے تھے لیکن خود مولانا فراہی رحمہ اللہ اور اصلاحی رحمہ اللہ میں موجود تفسیر کے اختلافات کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟
قرآن قطعی الدلالۃ کا اگر یہ مفہوم لیا جائے کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے تو یہ بات صحیح ودرست ہے کیونکہ ہر کلام اپنے متکلّم کے نزدیک قطعی ہوتا ہے،اصل مسئلہ تو مخاطبین کا ہے۔جمیع مخاطبین کے اعتبار سے قرآن کے بعض مقامات قطعی الدلالۃ ہیں اور بعض ظنی الدلالۃ۔پیچھے گزر چکا ہے کہ قرآن کریم میں لفظِ خاص قطعی الدلالۃ ہے۔اسی طرح قرآن کے وہ مقامات بھی قطعی الدلالۃ ہیں کہ جن کی تفسیر حدیث واقوال صحابہ میں موجود ہو یا اس پر علماء کا اتفاق ہو،سوائے اس شخص کے اختلاف کے کہ جس کا اختلاف معتبر ہی نہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اس موقف پر کہ قرآن کریم کا ہر لفظ قطعی الدلالۃ ہے،یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ پھر تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کے کیا معنی ہیں؟ یعنی قرآن کریم قطعی الدلالۃ ہے تو قرآن کے ایک مقام کی تفسیر دوسرے مقام سے کرنے کی کیا ضروری پڑی ہے۔تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کا اقرار اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن قطعی الدلالۃ نہیں ہے۔اور تفسیر کی یہ قسم جمہور علماء اور مولانا فراہی رحمہ اللہ دونوں کے نزدیک مسلّم ہے۔
|