Maktaba Wahhabi

400 - 535
سکتی ہے جیسا کہ ان کی حجاب کے بارے میں ان کی مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک مولانا فراہی رحمہ اللہ کی یہ تعبیر صحیح نہیں،اس تعبیر سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھے ہیں اور تاحال بڑھ رہے ہیں۔صحیح تعبیر یہ ہے کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے لیکن اپنے مخاطبین کے نزدیک بعض مقامات پر قطعی الدلالۃ ہے اور بعض پر ظنی الدلالۃ۔اس حد تک تو مولانا فراہی رحمہ اللہ کی بات درست ہے کہ ایک مفسر کو قرآن کے قطعی مفہوم تک پہنچنے میں غلطی لگ سکتی ہے،لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا جواب کے باوجود اصل سوال پھر بھی برقرار رہتا ہے کہ ایک مسلمان یا عالم دین کو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں مفسر کو قرآن کے قطعی مفہوم تک پہنچنے میں غلطی لگی ہے؟ اور خود ایک مفسر کے لیے وہ کون سا معیار ہے کہ جس کی روشنی میں وہ یہ طے کر سکے کہ اس کی تفسیر وہی ہے جو اللہ کی مراد تھی اور باقی مفسرین نے قرآن کے الفاظ کے قطعی مفہوم تک پہنچنے میں غلطی کھائی ہے؟ اہل سنت کے نزدیک یہ معیارشارحِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال یعنی حدیث مبارکہ،قرآن کے اوّلین مخاطبین یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے لغتِ قرآن کے بیان میں مروی اقوال اور قرآن کی نصوص کے فہم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و مابعد کے زمانے کے علماء کا اجماعی موقف اور اہل سنت کے متفقہ اصولِ تفسیر ومناہجِ فہم قرآن ہیں۔اہل سنت کے یہ متفقہ اصول تفسیر و مناہج فہم قرآن امام زرکشی رحمہ اللہ کی کتاب البرهان،امام سیوطی رحمہ اللہ کی الإتقان،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مقدّمة في أصول التفسير،حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی درایتِ تفسیری اور احناف،مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کی اصول فقہ کی امہات ا لکتب میں موجود ہیں۔دوسری طرف مولانا فراہی رحمہ اللہ کے الفاظ اس مسئلے میں صریح ہیں کہ ان کے نزدیک کسی مفسر کی غلطی پہچاننے کا معیار ان کے مزعومہ اُصول تفسیر ہیں،جنہیں وہ کبھی بنیادی اور ترجیحی اُصول کا نام دیتے ہیں اور کبھی انہیں نظمِ قرآن اور اسالیبِ عربی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سارا فلسفہ تفسیر القرآن بالحدیث اور تفسیر بالماثور کا درجہ گھٹانے کی سعئ نا مشکور ہے۔جو شخص بھی بنظر غائر مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اُصول تفسیر کا جائزہ لے گا وہ اس نتیجے تک ضرور پہنچ جائے گا کہ انکے یہ اُصول درحقیقت تفسیر بالرائے کو تفسیر بالماثور پر ترجیح دینے کے اُصول ہیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ باقاعدہ جلی سرخی قائم کرتے ہیں:الأصل الكاذب المعتمد عليه الناسکہ قرآن کی تاویل کے غلط اور جھوٹے اصول جن پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلے جس’غلط اصول ‘ کو لکھا ہے،وہ یہ ہے: "هل يأول الحديث إلى القرآن أم يعكس الأمر؟"[1] کہ کیا قرآن کی تاویل حدیث کی روشنی میں کی جائے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسرا غلط اصول تفسیر القرآن بالحدیث قرار دیا ہے۔[2] تفسیر القرآن بالحدیث کے غلط ہونے کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ احادیث ظنی ہیں اور ا ن میں صحیح اور سقیم ہر طرح کی احادیث موجود ہیں۔فرماتے ہیں: ولكن ههنا مزلة وخطر،وذلك أنك قبل أن تفهم القرآن،تتهافت على الحديث وفيه صحيح وسقيم
Flag Counter