فيعلق بقلبك من الآراء ما ليس له في القرآن أصل وربما يخالف هدي القرآن فتأخذ في تأويل القرآن إلى الحديث ويلبس عليك الحق بالباطل.فالسبيل السّوي أن تعلّم الهدي من القرآن وتبني عليه دينك،ثم بعد ذلك تنظر في الأحاديث،فإن وجدت ما كان شاردا عن القرآن حسب بادئ النظر،أولته إلى كلام اللّٰه فإن تطابقا فقرت عيناك،وإن أعياك،فتوقّف في أمر الحديث واعمل بالقرآن وقد أمرنا أولا بإطاعة اللّٰه ثم بإطاعة رسوله.[1]
کہ لیکن یہیں ایک چیز پر خطر اور صحیح بات سے پھسلانے والی بھی ہے۔وہ یہ کہ قرآن کی بات کو اچھی طرح سمجھنے سے پہلے اگر تم حدیث پر پل پڑو گے جس میں صحیح اور سقیم دونوں طرح کی احادیث ہوں تو تمہارا دل بعض ایسی آراء میں اٹک سکتا ہے جن کی قرآن میں کوئی اساس نہ ہو اور کبھی وہ قرآن کی ہدایت کے برعکس بھی ہوں۔اس کے نتیجہ میں تم قرآن کی تاویل میں اعتماد حدیث پر کرو گے اور تم پر حق و باطل گڈ مڈ ہو جائیں گے۔
پس سیدھا راستہ یہ ہے کہ تم قرآن سے ہدایت پاؤ۔اس پر اپنے دین کی بنیاد رکھو،اس کے بعد احادیث پر نگاہ ڈالو۔اگر کوئی حدیث بادی النظر میں قرآن سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کی تاویل کلام اللہ کی روشنی میں کرو۔اگر دونوں میں مطابقت کی کوئی صورت نکل آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔اگر اس میں ناکامی ہو تو حدیث کے معاملے میں توقّف کرو اور قرآن پر عمل کرو۔آخر ہمیں حکم بھی تو یہی ملا ہے کہ پہلے اللہ کی اطاعت کریں پھر رسول کی اطاعت کریں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک اس اصول کے غلط ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ علماء کے نزدیک اصول ہے کہ قرآن کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کرتا ہے لہٰذا تفسیر قرآن حدیث سے نہیں کرنی چاہئے،علاوہ ازیں اگر دو حدیثیں متعارض ہوں تو قوی تر کو لے لیا جاتا ہے،تو یہی معاملہ قرآن وحدیث کے تعارض میں کیوں نہیں کیا جاتا۔فرماتے ہیں:
"اتفقت العلماء أن القرآن يفسّر بعضه بعضا،فهذا لا بدّ أن يكون راجحا. وإذا تعارض حديثان فيأخذون بأثبت،فلم لا يفعل كذلك إذا تعارض القرآن والحديث. "[2]
یہ نہیں ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ حدیث سے بالکل استفادہ نہیں کرتے،ان کے نزدیک بعض مقامات پر قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس سے کوئی عقیدہ ثابت نہ ہوتا ہو۔وہ حدیث کو ظنّی قرار دیتے ہوئے فرع اور تابع کا مقام دیتے ہیں،مولانا لکھتے ہیں:
"والتّفسير بحديث يناسب المقام إذا لم يقرّر عقيدة ومذهبا مأمون،ولكن مع ذلك ظني،فأخذ به مع إمكان غيره" [3]
کہ حدیث کی مدد سے تفسیر اس وقت مامون ہوتی ہے جب وہ ایسے مقام میں ہو جس سے عقیدہ اور مذہب نہ قائم ہوتا ہو۔اس
|