Maktaba Wahhabi

399 - 535
لنا عمود الكلام لجمعنا تحت راية واحدة. "[1] کہ میں نے دیکھا کہ تاویل کا بیشتر اختلاف نتیجہ ہے اس بات کا کہ لوگوں نے آیات کے اندر نظام کا لحاظ نہیں رکھا ہے۔اگر نظم کلام ظاہر ہوتا اور سورہ کا عمود یعنی مرکزی مضمون واضح طور پر سب کے سامنے ہوتا تو تاویل میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتا،بلکہ سب سب ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاتے۔ اگر ان گروپوں کی تعداد میں ہی اختلاف ہو جائے یا گروپوں اور سورتوں کے عمود کے تعیّن میں دو رائے ہو جائیں تو قرآن کا سارا نظام گویا تلپٹ ہوجاتا ہے،جس کا لازمی نتیجہ فراہی مکتبِ فکر کے نزدیک شدید تفسیری اختلاف کی صورت میں نکلے گا۔تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم کے گروپوں اور ان کے اور سورتوں کے عمود کے تعیّن میں مولانا فراہی رحمہ اللہ اور مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا آپس میں ہی اختلاف ہے اور اس کے باوجود بھی ان کے ہاں قرآن کریم قطعی الدّلالہ ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن کریم کے کل نو گروپ ہیں،لیکن انہی کے تلمیذِ رشید کے ہاں قرآن کریم کے گروپوں کی تعداد نو نہیں،بلکہ سات[2]ہے: سورة الفاتحة سورة المائدة سورة الأنعام سورة التوبة سورة يونس سورة النور سورة الفرقان سورة الأحزاب سورة سبأ سورة الحجرات سورة ق سورة التحریم سورة الملك سورة الناس جس کے لئے وہ آیتِ کریمہ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ[3]سے استدلال کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نظمِ قرآنی ہو یا قرآن کاسیاق و سباق،عرفِ قرآنی ہو یا عربی لغت،یہ سب قرآن کی قرآن کے ذریعے تفسیر کے اصول نہیں بلکہ قرآن کی غیر قرآن کے ذریعے تفسیرکے اُصول ہیں۔قرآن کا سیاق وسباق،اس کا عرف اور اس کا نظم یہ سب غیر قرآن ہیں اور مفسر کا ذاتی فہم ہیں۔قرآن کے کتنے ہی مقامات ایسے ہیں کہ جن کی تفسیر میں سلف صالحین کا اختلاف ہے،کتنے مقامات کی تفسیر میں اصلاحی صاحب نے اپنے استاذ امام حمید الدین رحمہ اللہ سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کے باوجود قرآن قطعی الدلالۃ کیسے ہو گیا؟فراہی صاحب رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن کے الفاظ فی نفسہ قطعی الدلالۃ ہیں لیکن کسی مفسر کو اس قطعی مفہوم تک پہنچنے میں غلطی لگ
Flag Counter