کوئی عارضی یا تدبیری حکم نہ تھا جبکہ ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی کے بقول قرآن کے سیاق و سباق کے مطابق چہرے کا پردہ ایک عارضی و تدبیری حکم تھا۔اب یہ دو متضاد بیانات ہیں،اگرواقعتاً قرآن کا سیاق و سباق اور نظم اس کے قطعی مفہوم کو متعین کرتا ہے تو ایک ہی جیسے اُصول تفسیر یعنی نظمِ قرآن کے اصول کو ایک ہی نص پر منطبق کرنے کے نتیجے میں دو متضاد آراء کیسے حاصل ہو گئیں ؟
اگر تو دونوں استاد امام غلطی پر ہیں تو پھر قرآن قطعی تو ہو گا لیکن صرف مکتبۂ فراہی کے ایک ادنیٰ شاگرد کے لیے،نہ کہ اپنے جمیع مخاطبین کے لیے۔کیونکہ جو قرآن عصر حاضر کے دو اماموں کے لیے قطعی الدلالۃ نہ ہو سکا وہ عامۃ الناس کے لیے کیسے قطعی ہو سکتا ہے؟
اس طرح کی کئی اور مثالیں دی جا سکتی ہیں،مثلاً مولانا فراہی رحمہ اللہ نے پورے قرآن کی مکی ومدنی سورتوں کو ملا کر کل نو گروپ[1] تشکیل دئیے ہیں۔جو کچھ اس طرح ہیں:
1۔ سورة الفاتحة سورة المائدة
2۔ سورة الأنعام سورة التوبة
3۔ سورة يونس سورة الحج
4۔ سورة المؤمنون سورة النور
5۔ سورة الفرقان سورة الأحزاب
6۔ سورة سبأ سورة الحجرات
7۔ سورة ق سورة الطلاق
8۔ سورة الملك سورة الإخلاص
9۔ سورة الفلق والنّاس
جس طرح ہر سورت کا عمود ہے،اسی طرح ہر گروپ کا ایک جامع عمود ہے اور اس گروپ کی تمام سورتیں اس جامع عمود کے کسی خاص پہلو کی حامل ہیں،مثلاً کسی میں قانون وشریعت کا رنگ غالب ہے،کسی میں کشمکش حق وباطل کا۔اس ترتیب میں قانون وشریعت کے گروپ کو تمام دوسرے گروپوں پر مقدم کیا گیا ہے اور منذرات کے گروپ کو آخر میں کر دیا گیا،اس طرح پہلے اور آخری گروپ میں وہی نسبت ہے جو نسبت عمارت اور اس کی بنیادوں میں ہوتی ہے۔اور ہر گروپ کے اندر اسلامی دعوت کے تمام ادوار از ابتداء تا انتہاء ایجاز وتفصیل کے فرق کے ساتھ نمایاں ہیں۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک قرآنِ کریم کو سمجھنے کیلئے نظم کی اہمیت مسلّم ہے اور گروپوں اور سورتوں کے عمود نظمِ قرآنی کی بنیاد پر ہی قائم کیے گئے ہیں،تاکہ ان گروپوں اور سورتوں کو سمجھنے میں مدد ملے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إني رأيت جلّ اختلاف الآراء في التّأويل من عدم التزام رباط الآيات،فإنه لو ظهر النّظام واستبان
|