موافقت حاصل نہیں ہو گی وہ ترک کر دیے جائیں گے۔
مثلاً آیتِ کریمہ:﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾[1]كی درج ذیل تاویلیں ہو سکتی ہیں:1۔اللہ تعالىٰ تمہارے ضمیر سے خود تم سے زیادہ واقف ہے۔2۔اللہ تعالىٰ آدمی کو اس کے ارادہ سے روک دیتا ہے۔
جہاں تک پہلی تاویل کا تعلّق ہے اس کی نظیر قرآن میں موجود ہے۔نظم بھی اس کی تائید کرتا ہے۔یہ نظم قرآنِ مجید کے دوسرے مقامات سے مشابہت بھی رکھتا ہے۔چنانچہ بے شمار مقامات پر لفظ﴿تُحْشَرُونَ﴾کو تقویٰ کے ساتھ لایا گیا ہے[2] اور تقویٰ اللہ کے تصورِ علم کے ساتھ پید اہوتا ہے۔گویا آیت نے یہ تعلیم دی کہ اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہارے بھیدوں سے واقف ہے اور تم اسی طرف طرف اکٹھے کیے جاؤ گے۔اس تاویل کی معنیٰ ونظم دونوں اعتبارات سے مشابہت موجود ہے۔
جہاں تک دوسری تاویل کا تعلّق ہے تو اس کی بنا لوگوں نے ایک لفظی مشابہت پر اٹھائی ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:﴿وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ﴾[3] اگرچہ لفظی مشابہت کے بھی تاویل کی ایک بنیاد ہونے میں شبہ نہیں لیکن مذکورہ دلائل کی موجودگی میں یہ بنیاد کمزور ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لفظ مشترک ایسے مختلف معانی کے لئے آسکتا ہے جن کا فیصلہ سوائے سیاق کلام اور صحت معنی کے کسی دوسری چیز کے ذریعے سے نہیں کیا جا سکتا۔[4]
3۔ قرآن کریم کو قطعی الدلالۃ بنانے کا تیسرا اُصول مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے:
"إذا كان المعنى مقتضيا لعبادة غير ما في الكلام،فذلك المعنى مرجوح. " [5]
کہ اگر کوئی مفہوم کلام میں موجود عبارت کے علاوہ کسی دوسری عبارت کا تقاضا کرتا ہو تو یہ مفہوم مرجوح ہوگا۔
مثلاً تغنّی بالقرآن کے مفہوم کے تعین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا(57ھ)اور امام شافعی رحمہ اللہ(204ھ)نے اسی اصول سے استدلال کیا۔اس بارے میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ(198ھ)کا خیال تھا کہ اس کا مطلب یستغني بالقرآن ہے۔جب امام شافعی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔اس صورت میں حدیث کے الفاظ یوں ہونے چاہئے تھے:من لم یستغن بالقرآن چونکہ لم یَتَغَنَّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لئے حدیث کا مفہوم استغناء نہیں بلکہ تغنّی ہے۔[6]
4۔ قرآن کریم کو قطعی الدلالۃ بنانے کا چوتھا اُصول یہ ہے:
"الأخذ بأحسن الوجوه،والمراد به ما كان أولى بمعالى الأمور ومكارم الأخلاق وأوضح إلى
|