"عند اختلاف الوجوه والاعتبار يؤخذ ما كان أوفق بالمقام وعمود الكلام. " [1]
کہ وجوہ کے اختلاف کے وقت جو معنیٰ سیاق وسباق اور عمود کلام کے زیادہ قریب ہوگا وہ لے لیا جائے گا۔
اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ عزو جل کی مخصوص صفت اس کی کامل احدیت ہے لیکن اس کے باوجود ہم مختلف مواقع پر اللہ عزو جل کا ذکر مختلف اسماء اور الگ الگ ترتیبوں کے ساتھ پاتے ہیں،جیسے﴿بِرَبِّ النَّاسِ()مَلِكِ النَّاسِ()إِلَهِ النَّاسِ﴾[2]يا﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ()الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ()مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾[3]يا﴿الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾[4]يا﴿الْعَزِيزُ الْغَفُورُ﴾[5]يا﴿الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ﴾[6]
جو شخص قرآنِ مجید کو غور سے پڑھنے کا عادی نہیں وہ نہ کلمات کے موقع ومحل کی طرف توجہ کرتا ہے اور نہ ان کے خاص پہلووں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن ایک صاحبِ نظر اور حقیقت کے متلاشی پر جب ایک مرتبہ بعض ظاہر پہلو واضح ہوجائیں تو اس کے لئے مزید غور وفکر کو ترک کرنا آسان نہیں رہ جاتا۔وہ آگے کی حقیقتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر تمہیں مذکورہ بالا حقیقت سے اتفاق ہے تو تم قرآن میں دی ہوئی انبیاء ورسل کے ناموں کی ترتیب میں آسانی سے غور کر سکوگے۔ظاہر ہے کہ انکے درجے الگ الگ ہیں اور قرآنِ مجید میں انکا تذکرہ متنوع ترتیب اسماء کے ساتھ آیا ہے۔اگر تم موقع ومحل پر غور کروں گے تو گہرے اشارات تک رسائی ہوگی۔قصوں اور احکام کی ترتیب میں بھی تم اسی طرح کے خاص اشارات کی طرف رہنمائی پاؤ گے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ کسی شے کے اشارات واعتبارات اسکے محل سے تلاش کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ لفظ مشترک کے معانی متعین کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔اس لئے ترجیح تاویل کا پہلا اصول یہ ہے کہ معانی کے متعدد احتمالات میں فیصلہ کن امر نظم ہوتا ہے۔
2۔ قرآن کریم کو قطعی الدلالۃ بنانے کا دوسرا اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"إذا كان الكلام ذا احتمالات،تؤخذ منها ما كان لها نظير في باقي القرآن،فما لم يوافقه قرآن غير ما فيه النّزاع يترك. " [7]
کہ جب کلام مختلف احتمالات رکھتا ہو تو اس مفہوم کو ترجیح دی جائے گی جس کی نظیر باقی قرآن سے ملتی ہو۔جن معانی کو قرآن کی
|