قرآن یا میری حدیث سے اعراض کیا وہ دُنیا و آخرت دونوں کے خسارہ میں ہے۔میں اپنی امت کو حکم دیتا ہوں کہ میرے قول کو پکڑیں،میرے حکم کی اطاعت کریں اور میری سنت کی اتباع کریں۔جو قرآن سے راضی ہو وہ حدیث سے بھی راضی ہو۔اللہ عزو جل فرماتے ہیں:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾پس جس نے میری اقتداء کی وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت کو ترک کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘[1]
امام احمدرحمہ اللہ(241ھ)بھی اس نقطہ نظر کے حامی ہیں۔امام ابن القیم رحمہ اللہ(751ھ)نے جب امام احمد رحمہ اللہ کے استدلال کا ذکر کیا ہے تو اصلِ اوّل نصوص کو قرار دیا ہے اور بیان و احکام کے سلسلے میں نصوصِ قرآن کو نصوصِ سنت پر مقدّم نہیں رکھا۔
ناصر الدین البانی رحمہ اللہ قیاس کی مشروعیت پر استدلال کے لئے پیش کی جانے والی سیدنا معاذ بن جبل کی مشہور حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حدیثِ معاذ میں حکم و فیصلہ کے تین مرحلے بیان کئے گئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ رائے سے حکم کی تلاش سنت کے بعد ہو گی اور سنت سے قرآن کے بعد،رائے کے متعلّق تو یہ قاعدہ صحیح ہے چنانچہ علماء کا قول ہے:إذا ورد الأثر بطل النّظر
لیکن سنت کے سلسلہ میں یہ قاعدہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سنت قرآن کے سلسلہ میں حاکم اور اس کی مبین ہے۔اس لئے قرآن میں حکم کے وجود کا گمان ہوتے ہوئے بھی اسے سنت میں تلاش کرنا ضروری ہے۔قرآن کے ساتھ سنّت کا تعلق ہرگز ویسا نہیں ہے جیسا کہ سنت کے ساتھ رائے کا ہے،بلکہ کتاب و سنت دونوں کو ایک ہی ماخذ ماننا ضروری ہے۔دونوں کے مابین کوئی تفریق نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس با ت کی جانب یوں اشارہ فرمایا ہے:((أَلَا إِنّي أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَه مَعَه))کہ خبردار!مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز۔اور اس چیز سے سنت ہی مراد ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:((لَنْ يَتَفَرّقَا حَتّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضِ))کہ یہ دونوں چیزیں الگ نہ ہوں گی حتی کہ حوض پر وارد ہوں۔اس لئے قرآن و سنت کے مابین درجہ کی تعیین صحیح نہیں کیونکہ اس سے دونوں میں تفریق لازم آتی ہے جو باطل ہے۔‘‘ [2]
عبد الغنی عبد الخالق لکھتے ہیں:
’’صحیح بات یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے معاون اور مساوی ہیں وحی الٰہی ہونے کے اعتبار سے اور استدلال کی قوت رکھنے کے اعتبار سے بھی اور اس میں قرآن کے الفاظ کے منزل من اللہ ہونے،اس کے اعجاز اور اس کی تلاوت کا حکم ہونے اور قرآن میں سنت کی حجیت کے دلائل موجود ہونے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اور جب دونوں من جانب اللہ ہیں تو ان میں حقیقتاً باہم کوئی اختلاف ہونا ممکن نہیں اور ناممکن ہے کہ کتاب و سنت،جب دونوں قطعی الدلاتہ والثبوت ہوں،کے درمیان اتحادِ زمانہ کے باوجود تعارض واقع ہو جائے۔‘‘[3]
|