Maktaba Wahhabi

384 - 535
ڈاکٹر احمد حسن استنباطِ حکم کے اسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’ ... جب کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کو قرآن مجید کی آیات میں تلاش کرنا چاہئے،وہاں نہ ملے تو احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔قرآنِ مجید میں حکم ملنے کے بعد بھی اس کی مزید تفصیل حدیث میں دیکھنی چاہئے۔‘‘[1] حاصل یہ ہے کہ قرآن کی شرح وتفسیر میں سنت کو ثانوی حیثیت نہیں دی جا سکتی،کیونکہ ’’قرآن اور سنت دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔قرآں وحی متلو ہے اور سنت وحی غیرمتلو اور دونوں کامنبع و منبط وحی خداوندی ہے۔ان میں سے کسی ایک کا انکار دونوں کا انکار ہے اور ہدایت و نجات کے لئے ان دونوں پر ایمان لانا اور عمل کرنا ناگزیر ہے۔‘‘[2] مولانا ابو عمّار زاہد الراشدی حالاتِ حاضرہ کے مطابق آسان انداز میں اسے اس طرح واضح کرتے ہیں: ’’نمائندگی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نمائندہ جو بات بھی کہتا ہے،وہ اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ اس کی طرف سے ہوتی ہے جس کا وہ نمائندہ ہوتا ہے۔ہم خود بھی اگر کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں اور اس کی بات توجہ سے نہیں سنی جاتی تو شکایت ہمیں ہوتی ہے کہ فلاں صاحب نے ہمارے نمائندے کی بات پر توجہ نہیں دی اور اس کو نمائندہ کی بجائے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اور رسول کا معنیٰ ہی قاصد اور نمائندہ کے ہیں،اس لئے جب اللہ عزو جل اُصولی طور پر یہ بات فرما رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نمائندہ ہیں،یہ جس کام کا کہیں،وہ کرو اور جس سے روکیں اس سے رُک جاؤ۔تو اس اُصول کے تحت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر ارشادات وفرمودات اللہ عزو جل ہی کے ارشادات قرار پاتے ہیں میں اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں کا۔ آپ کے ضلع کا حاکم ڈپٹی کمشنر ہے جو صوبائی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو حکم بھی دیتا ہے،وہ صوبائی حکومت کی طرف سے تصور ہوتا ہے۔آج تک کسی شخص نے کسی ڈپٹی کمشنر کے پاس جا کر یہ سوال نہیں کیا کہ آپ نے جو حکم جاری کیا ہے،اس پر صوبائی حکومت کی تصدیق دکھائیں اور اگر کسی کو شوق ہو تو وہ ڈپٹی کمشنر کے کسی حکم پر اس سے یہ سوال کر کے دیکھ لیں،جواب خود معلوم ہو جائے گا۔‘‘[3] پس ثابت ہوا ہے کہ قرآن وسنت کے مابین کسی قسم کی تفریق،تقدیم و تاخیر یا مدارج کی تعیین قرآن و حدیث کے تقاضے،سلف صالحین کے آثار،نیز علماء ومحققین کے فیصلوں کے منافی ہے۔اصلاً دونوں چیزیں یکساں طور پر مدارِ شریعت ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم
Flag Counter